پاکستان کی پہلی ‘این ٹائنی ای چپ’ لانچ کردی گئی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) پاکستان کی پہلی ‘این ٹائنی ای چپ’ لانچ کردی گئی، پروجیکٹ ہیڈ ڈاکٹر ریحان احمد کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ میں پہلا مائیکرو پروسیسر بنایا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نسٹ یونیورسٹی میں پاکستان کی پہلی این ٹائنی ای چپ لانچ کردی گئی، نسٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریحان کی سربراہی میں 4 سال میں پروجیکٹ کو مکمل کیا گیا۔
پرو ریکٹر ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ نسٹ نے اس سال پہلی چپ بنا لی ہے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے پاکستان اور نسٹ کے لیے، اب پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جہاں یہ پروسیسر بن رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ نہ صرف نسٹ بلکہ پاکستان کے لیے بھی اہمیت کاحامل ہے، سیمی کنڈیکٹر انڈسٹری سینکڑوں ارب ڈالر کی انڈسٹری ہے۔
ڈاکٹررضوان نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کےلیےایسے پروجیکٹس بہت اہم ہیں، پاکستان چپ بنانےمیں خود کفیل ہوگا تو سیکیورٹی کے مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نسٹ پاکستان کی ٹاپ کی یونیورسٹی ہے، 30 سال کے بہت کم عرصے میں دنیا کی 300 یونیورسٹیوں میں نسٹ کو لے آئے ہیں ، صرف میرٹ، تعلیم اور ریسرچ پہ زور دے کر یونیورسٹی کو یہاں تک پہنچایا
ڈاکٹررضوان نے بتایا کہ یونیورسٹی میں چپ ڈیزائن سنٹر ڈیزائن کیا ہے، جسے بہت جلد فعال کردیا جائے گا ، چپ کو مزید ہم بہت سے پروجیکٹس میں استعمال کریں گے اور چپ کو مزید بہتر کرنے کے لیے اس پر کام کریں گے۔این ٹائنی پروجیکٹ ہیڈ ڈاکٹر ریحان احمد کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ میں پہلا مائیکرو پروسیسر بنایا ، چپ بنانے کی کامیابی کے پیچھے اسٹوڈنٹس کی محنت ہے،اس پروجیکٹ میں چپ کا پورا ایکو سسٹم ڈیویلپ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ریحان احمد نے بتایا کہ پروجیکٹ کو این ٹائنی پروجیکٹ کا نام ہے، اپلائیڈ ریسرچ پر فوکس ہے، یہ پروجیکٹ گراؤنڈ اپ پروجیکٹ ہے ، تین سے چار سال میں یہ پروجیکٹ مکمل کیا گیا،اس چپ کا چل جانا ہماری محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کے لوگوں کو انوائیٹ کیا انہوں نے چپ دیکھنے کے لیے وزٹ کیا ، حکومت کو جیسی بھی چپ سیٹ چاہئیے اور فنڈنگ ہو تو ہم بنا کردے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ریحان نے کہا کہ نسٹ فنڈڈ پروجیکٹ ہے، تقریباً 5 ملین میں پروجیکٹ مکمل ہوا، نسٹ سو میں سے چار سٹوڈنٹس سیلیکٹ ہوتے ہیں ، اس پروجیکٹ کو بنانے میں 8 سے 10 افراد کی ٹیم تھی۔ڈاکٹر اجمل نے بتایا کہ چپ تائیوان میں تیار ہوئی لیکن کام نسٹ میں ہوا، تائیوان 55 فیصد چپس بناتا ہے لیکن پاکستان میں عمدہ ہیوم ریسورس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نسٹ میں ملک کے بہترین طالب علم موجود ہیں ، مارے طالب علم بہت بڑاسرمایہ ہیں ، ایک سال پہلے چپ کا ڈیزائن مکمل کرلیا تھا۔ڈاکٹر اجمل نے کہا کہ ایپل جیسی بڑی کمپنیاں 1 ارب ڈالر کا بجٹ چپس پہ لگاتے ہیں ، چپس گھریلو الیکٹرانکس میں استعمال ہوتی ہیں ، ہم چپ کو پچھلے چند عرصے سے ٹیسٹ بھی کرتے رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں کی چیزوں میں ہم امپورٹڈ چپس نہیں استعمال کرسکتے ۔کسی اور کی چپ سیکیورٹی اداروں میں استعمال کرنا بہت بڑا رسک ہے۔یونیورسٹی کے پروفیسر نے بتایا کہ سیمی کنڈیکٹر چپس کا بے پناہ استعمال ہے اور اسکا استعمال ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے ، نسٹ پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جو آئی بی ایم، گوگل اور اب ایمازون کے ساتھ لنک ہونے جارہی ہے۔