پاکستان

ادارے اپنے کردارسے عزت کماتے ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ادارے اپنے کردارسے عزت کماتے ہیں۔ کیا محض بیانات سے کوئی پبلک آفس ہولڈرپراثراندازہوسکتا ہے؟ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینئرصحافی اوراینکرپرسن سمیع ابراہیم کے خلاف ایف آئی اے کے نوٹسزسے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سمیع ابراہیم کے خلاف بادی النظر میں کیس نہیں بنتا۔
عدالت نے ایف آئی کو حکم دیا کہ ایف آئی اے کو ایک موقع اور دے رہے ہیں عدالت کو مطمئن کریں۔ اب کس بنیاد پران کے کے خلاف کارروائی کی گئی ہے؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کیلئے کہا وہ دو نمبری کررہا ہے۔ اداروں پراثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسی باتیں توسیاسی لیڈرزبھی روز کہتے ہیں۔ کیا ان تمام سیاسی لیڈرزکیخلاف بھی کارروائی کریں گے؟ کئی پروگرام عدالت کیخلاف ہوئے کیا ہم کارروائی شروع کردیں؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا محض بیانات سے کوئی پبلک آفس ہولڈر پر اثرانداز ہوسکتا ہے؟ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ انہوں نے کہا رات کو چیف جسٹس پاکستان نے عدالت کیوں کھولی، جس پر عدالت نے کہا کہ سب کو پتا ہے رات کوعدالت کیوں کھولی گئی تھی۔ یہ عدالتیں آئین کے ساتھ کھڑے ہوئی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگ تو روزانہ سوشل میڈیا پر بات کرتے ہیں کیا روز کارروائی کریں گے؟ نہ کوئی ادارہ، نہ پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ کسی کی بات سے ڈرے۔ اداروں کو شہرت بچانے کیلئے ایف آئی آرز کی ضرورت نہیں۔ایف آئی اے کے خواجہ امتیاز نے جواب دیا کہ پی ایف یو جے نے ایف آئی اے سے نوٹس واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ عدالت ان کی ویڈیو کا ٹرانسکرپٹ دیکھ لے۔عدالت نے کہا کہ مان لیا سمیع ابراہیم نے اداروں کا احترام نہیں کیا مگر یہ بتائیں جرم کیا بنتا ہے؟ ایف آئی اے صرف قانونی طورپر دیکھ سکتا یے۔ ابھی تک ایف آئی اے مطمئن نہیں کرسکی کہ سمیع ابراہیم کا جرم کیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت اداروں کا احترام کرتی ہے۔ عدالت چاہتی ہے ادارے اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہ کرکریں۔ سمیع ابراہیم نے ایسی کیا بات کردی کہ جس سے ادارے ڈر گئے۔ کیا کوئی پبلک آفس ہولڈر اتنا کمزور ہے کہ ان کی ویڈیو سے ڈر گئے؟عدالت نے ایف آئی اے حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس عدالت سے متعلق روزانہ بہت باتیں کرتے ہیں۔ روازںہ لوگ باتیں کرتے ہیں آپ نے اور کتنے لوگوں کیخلاف کارروائی شروع کی۔ ادارے اپنے کردار سے عزت کماتے ہیں۔ اداروں کو آپ کی ایف آئی آر کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ادارہ اتنا کمزور نہیں کہ ان کی باتوں سے ڈرجائے۔ ایف آئی اے اتنا بتا دے سمیع ابراہیم نے جرم کیا کیا؟ ان کے کہنے سے کسی کی ریپوٹیشن نہیں خراب ہوتی۔ صحافیوں کو صحافتی اقدار کے مطابق بات کرنی چاہے۔ثاقب بشیر صدراسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے کہا کہ کل کی ٹوئیٹس دیکھ لیں کہ اس عدالت سے متعلق کیا باتیں ہوئیں، ایف آئی اے کو بس صحافی نظرآتے ہیں؟ اس طرح اٹھانے لگے تو ایف آئی اے کو آدھا پاکستان اٹھانا پڑے گا۔
عدالت نے کہا کہ سمیع ابراہیم کا جواب مل چکا ہے اب ایف آئی اے بتائے ان کا جرم کیا ہے۔ سچ چھپانے سے چھپتا نہیں کوئی کچھ کہتا رہے۔ اب ایف آئی اے کا اپنا امتحان ہے کہ عدالت کو مطمئن کرے سمیع ابراہیم نے کیا جرم کیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو سینئرصحافی اوراینکرپرسن سمیع ابراہیم کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت بیس ستمبر تک ملتوی کردی۔

متعلقہ خبریں