میں تو سب سے زیادہ غریب ہوں، نبی ﷺ مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ کیوں دیں گے؟ حضرت علیؓ اور فاطمۃُ الزہراءؓ کا نکاح کیسے ہوا؟ مولانا طارق جمیل کا بیان

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)1 ذوالحجہ کو نبی کریمﷺ نے اپنی سب سے لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرہ کا نکاح شیرِ خُدا حضرت علیؓ سے کیا۔ نکاح آپ ﷺ نے خود پڑھایا اور اس کے بعد مسجدِ نبویﷺ میں شہد کا شربت تقسیم کیا۔ ان کا نکاح کیسے ہوا؟ مولانا طارق جمیل اپنے بیان میں بتاتے ہیں کہ:
” آپ ﷺ نے اپنی بیٹیوں کے نکاح بہت سادگی سے کیے، لیکن بی بی فاطمہ کا نکاح بہت دھوم دھام سے کیا۔ س سے پہلے بی بی فاطمہ کا رشتہ لے کر ابو بکر صدیق آئے، پھر حضرت عمر گئے تو بھی آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت ایک صحابی عبدالرحٰمن بن عوف رضہ نے حضرت علی رضہ سے کہا کہ اے علی آپ حضور کی خدمت میں پیش ہوں جائیں، امید ہے کہ آپ کو اپنی بیٹی کے نکاح میں قبول کرلیں۔ حضرت علی نے کہا مجھے کیسے؟ میں تو سب سے زیادہ غریب ہوں؟ کہا آپ جائیں، آپ کو قبول کرلیا جائے گا۔ جب حضرت علی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی ﷺ کو دیکھ کر ہی خاموش ہوگئے۔
نبی نے پوچھا کیا بات ہے علی کیسے آنا ہوا، علی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جس پر نبی ﷺ نے کہا فاطمہ کے رشتے کے لیے آئے ہو؟ حضرت علی نے کہا کہ جی ہاں! جس پر نبی ﷺ نے کہا انشاء اللہ! جب حضرت علی واپس لوٹے تو صحابی عبدالرحٰمن بن عوف نے پوچھا کیا کہا رسولِ خُداﷺ نے تو ععلی رضہ نے کہا میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے کیسے ہاں کریں گے؟ تو صحابی نے کہا آپ یہ تو بتائیے کہ نبی ﷺ نے کیا جواب دیا۔ کہا انشاء اللہ! تو کہنے لگے علی آپ اس کو خدا کے رسول کی جانب سے ہاں سمجھیئے۔ اس کے بعد نبی ﷺ واپس گھر آئے اور اپنی بیٹی فاطمہ سے سوال کیا کہ فاطمہ کیا کہتی ہو؟ علی کا رشتہ آیا ہے قبول کرلیں؟ کہا جی بابا!
جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل وحی لے آئے تھے کہ فاطمہ کا نکاح علی سے طے کردیا جائے لیکن نبی ﷺ نے بیٹی کی مرضی کے بناء ان کا نکاح نہیں کیا۔ جب فاطمہ نے ہاں کی تو آپ ﷺ نے حضرت علی کو بلایا اور کہا کہ علی مسجدِ نبوی ﷺ میں لوگوں کو جمع کرو، ایک مجمع جمع ہوگیا۔ اس وقت نبی ﷺ نے سب کے سامنے کہا مجھے اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے کہ اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ کا نکاح علی سے کردیا جائے۔ پھر نبی ﷺ نے مسجدِ بنوی ﷺ میں حضرت علی کا نکاح اپنی بیٹی فاطمہ سے پڑھایا اور کہا اے علی! 500کیا درہم مہر کے عوض آپ فاطمہ بنتِ محمد کو قبول کرتے ہیں؟
یوں ان کا نکاح انجام پایا۔ نکاح کے بعد روایات میں کہا جاتا ہے کہ 6 یا 7 ماہ کے بعد ان کی رخصتی بھی بہت سادگی سے ہوئی۔ لیکن اس وقت حضرت علی کے پاس نہ تو اپنا گھر تھا اور نہ ہی اتنے پیسے تھے کہ ولیمہ کی رسم ادا کرسکیں۔ شادی کے بعد نبی ﷺ نے حضرت علی رضہ سے کہا کہ اے علی ابھی تو آپ کو ولیمہ بھی کرنا ہے۔ علی نے جواب دیا: یا رسول اللہ! میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ میں ولیمے کی تقریب کرسکوں۔ جس پر حضرت محمد ﷺ نے شیرِ خُدا کو 9 درہم دیے اور کہا چھوہارے، گھی اور شہد ان پیسوں سے خرید لاؤ۔ ایک صحابی نے کہا میرے پاس ایک چھترا ہے جس کا 13 یا 14 کلو گوشت ہے تو آپ کا ولیمہ ہو جائے گا۔ نبی ﷺ جو بیٹی کے باپ تھے انہوں نے اپنی بیٹی کے ولیمہ کی تقریب خود کی، کھانا بھی خود تقسیم کیا۔ یوں سادگی سے نبی ﷺ نے اپنی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ بنتِ محمد ﷺ کی شادی شیرِ خُدا حضرت علی رضہ سے کی۔