بھٹیاں پانی سے بھر گئیں ہزاروں مزدور بے روزگار

مطیع اللہ مطیع
اینٹ کی بھٹیوں میں کام شروع ہونے تک فاقوں پر گزارا کرنا پڑے گا یہ الفاظ 42 سالہ بشیر احمد کے ہیں جو کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں قائم ایک بھٹی پر مزدوری کرتے ہیں .
بشیر احمدنے 20سال کی عمر میں گھرکے مالی مشکلات کی وجہ سے والد کا پیشہ اپنایا غربت اور افلاس کے سائے مٹانے اور گھر کی کفالت کے لئے انہوں نے اینٹوں کی بھٹی میں بطور مزدور کام شروع کیا بشیر احمد نے اپنی زندگی کے 22سال بھٹی کے چمنیوں میں گزارے ہیں .


بشیر احمد کہتے ہیں کہ شروع شروع میں دھویں کے ہوتے ہوئے کام میں مشکلات کاسامنا کرناپڑتا تھا لیکن دھیرے دھیرے عادت بن گئی لیکن ہمارے کئی ساتھی دھویں کی وجہ سے بیمارہونے لگے بھٹہ میں کام کرنے والے مزدور اور اطراف میں آبادی بھی چمنیوں سے نکلنے والی دھویں کی رحم وکرم پر ہیں اور ان کے پاس احتیاطی تدابیر ،ہنگامی صورتحال میں میڈیکل اور دیگر سہولیات میسر نہیں ہے .
وہ بتاتے ہیں کہ بھٹی پر کام کرنے والے مزدوروں کوصحت کے مسائل کاسامنا ہے اور یہ کام انتہائی مشکل ہے . سردیوں اور بارشوں کے دنوں میں کام بند ہوجانے کی وجہ سے ہمیں مالی مشکلات کاسامنا بھی رہتاہے لیکن حالیہ بارشوں کی وجہ سے جب عین سیزن میں بھٹیاں پانی سے بھر گئیں اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں .
انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے)کے اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ ،پشین ،مستونگ ،سبی اور نصیرآبادمیں 500سے زائد بھٹیاں موجود ہیں جن میں سے 15سے 20بھٹیاں جدید ٹیکنالوجی کے نظام زگ زیگ سسٹم پر منتقل کی جاچکی ہیں بلوچستان میں بارشیں بھٹے بھی محفوظ نہ رہے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 14جون سے 9ستمبر تک بلوچستان میں 64ہزار 385مکانات وعمارتیں منہدم ہوئی ہیںجبکہ ملک گیر سطح پر 17لاکھ 43ہزار 345مکانات ،عمارتیں منہدم ہوئی ہیں اور ان مکانات کی دوبارہ تعمیر کیلئے کچلاک، پشین ،مستونگ ،سبی اور ڈیرہ مراد جمالی کے بھٹیوں کودوبارہ چلاناپڑے گا اس وقت بلوچستان سمیت پاکستان کے بیشتر حصوں میں اینٹیں بنانے والے ہزاروں چھوٹے کارخانے اور بھٹے بکھرے پڑے ہیں، جو 220 ملین نفوس پر مشتمل اس ملک کو تعمیراتی سامان فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں .
پاکستان ورکرز فیڈیریشن کے اعدادوشمار کے مطابق بھٹیوں میں اس وقت 40 ہزار سے زائد مزدور کام کررہے ہیں مزدوروں اور مزدوررہنمائوں کے دشت تیرہ میل میں بھٹہ مزدوروں کو امدادی سامان کی عدم فراہمی کے الزامات ڈپٹی کمشنر نے تردید کردی .
بھٹہ مالک ملک کامران خان مہترزئی کاکہناہے کہ حالیہ بارشوں سے بھٹیوں کو 3ارب 50کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچاہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے ہیں .
پاکستان ورکرز فیڈریشن بلوچستان کے جنرل سیکرٹری پیر محمد کاکڑ کے مطابق اینٹ کی بھٹیوں کی صنعت سے 40ہزار سے زائد لوگ وابستہ ہیں جو محنت مزدوری کرکے اپنے گھروں کے چولہے چلا رہے ہیں . ائیرکوالٹی انڈیکس کے مطابق 11ستمبر کوکوئٹہ میں آلودگی 2.5پرٹیکیولیٹ میٹرز ہے جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے گائیڈلائنز سے 4گنا زیادہ ہے .
حاجی خان بھی بشیر کی طرح ضلع مستونگ کے علاقے تیرہ میل میں واقع بھٹیوں پر کام کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم تین بھائی بھٹیوں میں کام کرتے تھے لیکن بارشوں کے بعد بھٹیوں میں پانی جمع ہوگیاہے ابھی کام نہیں ہے اور تینوں بے روزگار ہیں ڈیرہ مراد جمالی میں بھی پانی آیاہے وہاں سے ہم مستونگ آئے لیکن یہاں بھی پانی آیاہے .
یہاں جتنی کچی اینٹیں بنائی گئی وہ خراب ہوئی ہیں حتی کہ پکی اینٹ بھی جو بھٹوں میں پڑی تھی پانی میں بہہ گئیں ہے اب بھٹہ مزدور سڑک کنارے خیمے لگا کر پناہ لینے پر مجبور ہیں اب تک ہماری کوئی مدد نہیں کی گئی ہے . گرمی میں کوئٹہ اور سردی میں ڈیرہ مراد جمالی میں کام کرتے تھے لیکن اب دونوں علاقوں میں پانی کی وجہ سے بھٹیاں بند ہوگئی ہے ہم جیسے بہت سے ساتھی جو یہاں کام کرتے تھے اب بے روزگار ہیں .
بھٹہ مزدور تنظیم کے منیر سولنگی کہتے ہیں کہ سیلابی ریلے سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں بھٹہ مزدور جہاں آباد ہیں وہاں 90فیصد کچے مکانات متاثر ہوئے ہیں اب بھی پانی کھڑا ہے ہم نے صرف اپنی جانیں بچانے میں عافیت جانی آج بھی ہمارے وہاں کھڑے موٹرسائیکل ودیگرسامان پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں .
پیر محمد کاکڑ کہتے ہیں کہ تیرہ میل میں سندھ ودیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو امداد اب تک نہیں ملاہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اپنایا گیا موقف ہے ضلعی انتظامیہ کہتی ہے کہ یہاں کے لوکل لوگوں کو امدادی سامان فراہم کی جائیں چونکہ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کا لوکل /ڈومیسائل ڈیرہ مراد جمالی یا سندھ ودیگر علاقوں سے ہیں تو وہ امداد سے محروم ہیں .
صوبائی سیکرٹری ماحولیات اسفندیار خان کاکڑ کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے بلوچستان کو سخت متاثر کیا ہے . بلوچستان میں مسلسل خشک سالی سے پانی کا سنگین مسلہ پیدا ہوا ہے . صورتحال پر قابو پانے کے لئے حکومت اور سول سوسائٹی نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگاحالیہ بارشیں اور تباہی اس کی واضح مثال ہے . محکمہ ماحولیات ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھا رہی ہے کرشنگ پلانٹس کی بندش، بائیو ڈاورسٹی کے علاوہ اینٹ کی بھٹیوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے . بھٹیاں شہر میں آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ہم نے یہ قدم اٹھایاہے کہ بھٹہ خشت کیلئے مزید این او سیز جاری نہیں کی جائیںگی البتہ جو بھٹی مالک اپنی بھٹی کو زگ زیگ طرز پرتبدیل کرے گا تو اسے ہی محکمہ ماحولیات کی جانب سے این او سی جاری کی جائیگی .
ماہر طب ڈاکٹر محبت ترین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے انسانی زندگی پر اثرات کے مختلف پہلو ہیں وہ لوگ جو پہلے سے سینے کے مرض یا پھر دمہ کی بیماری لاحق ہوںتو آلودگی ان کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بیماریوں سے نمٹنے اور ماحول کو صاف رکھنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کیاجائے .
وہ کہتے ہیں کہ بھٹیوں ،کرش پلانٹس اور کانوں میں گردوغبار ،آلودگی سے ایسی بھی بیماریاں پھیلتی ہے اگر انسان ایک بار ان بیماریوں کاشکار ہوں توپھر وہ زندگی بھر اس بیماری سے متاثر رہے گا . ماحولیاتی آلودگی میں بھٹیوں کے دھویں کے ساتھ ساتھ اس سے پیدا ہونے والی حرارت بھی خطرناک ہے .
مزدور رہنما ماما سلام کہتے ہیں کہ اینٹ کی بھٹیوں پر کام کرنے والے افراد کو آج بھی مزدور کی حیثیت حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں مزدوروں جتنی اجرت دی جارہی ہے ،مزدوروں کے مسائل کے حوالے سے مختلف فورمز پر بات رکھی گئی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی آج اینٹ کی بھٹیاں بارشوں سے متاثر ہیں ایک طرف مالکان کا مالی نقصان جبکہ دوسری جانب مزدور بے روزگار ہوئے ہیں حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ان مزدوروں کیلئے روزگار کابندوبست کرے .
منیر سولنگی نے شکوہ کیاکہ ایک طرف بھٹہ مالکان اور ٹھیکیداروں کی جانب سے ہماری مدد نہیں کی گئی جبکہ انتظامیہ نے بے یار ومدد گار چھوڑ کر موقف اختیارکیاکہ ہم صرف مقامی لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں دشت میں موجود 80فیصد بھٹیاں متاثر ہوئی ہیں روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں چند ایک جو بہت کم متاثر ہوئی ہیں اس پر ایک ہفتے میں کام کاآغاز ہوسکے گا جس کے بعد کچھ مزدوروں کو شاید روزگار ملے تاہم جب امداد نہ ملنے کی شکایت کے حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر دشت فریدہ ترین سے رابطہ کیا تو ان کاکہناتھاکہ یہ ایک من گھڑت کہانی ہے بھٹیاں پانی سے بھر گئیں اور مزدور اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے تھے انتظامیہ نے 40ٹینٹس لگائے ہیں جہاں صرف اور صرف بھٹہ مزدور اور ان کی اہل خانہ کورکھاگیاہے وہاں روزانہ کی بنیاد پر دو وقت کا کھانا اور صبح کا ناشتہ ناشتہ فراہم کیاجاتاہے دشت میں 4ہزار تک مزدوروں کو سامان فراہم کیاگیاہے .
بھٹہ مزدوروں کو سہولیات کی عدم فراہمی سے متعلق رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر مستونگ سلطان بگٹی نے معاملے کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا اپنے طورپر اس کی تصدیق کرسکتی ہے انتظامیہ کی جانب سے شروع میں فوری طورپر نہ صرف خیمے فراہم کئے گئے بلکہ راشن بھی دیاگیاہے جبکہ دشت میں واقع بھٹہ مزدوروں کو غیر سرکاری تنظیم الخدمت فائونڈیشن کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کھانا بھی فراہم کیاجارہاہے انتظامی آفیسران آزادی کے ساتھ کام کررہے ہیں اسسٹنٹ کمشنر فریدہ ترین نے نگرانی کی بھی ہدایت کی ہے .
ڈپٹی کمشنر سلطان بگٹی کہتے ہیں کہ یہاں کسی بھی غیر سرکاری تنظیم یا ڈونر کی طرف سے رابطہ کیاجاتاہے تو ہم انہیں دیگر علاقوں سے زیادہ دشت میں امدادی سرگرمیوں کاکہتے ہیں تاکہ مزدوروں کے مسائل حل ہوسکے .
ملک کامران مہترزئی کاکہناہے کہ ایک بھٹی پر تقریبا60سے 70لاکھ روپے کا خرچہ آتاہے بلوچستان میں اس وقت 500سے زائد بھٹیاں موجود تھیں لیکن بارشوں وسیلابی ر یلو ں کی وجہ سے اب بھٹیوں کے گرد پانی جمع ہیں نہ صرف بھٹیاں بلکہ کچے اینٹیں بھی پانی میں ڈوب گئی ہیں مجموعی طورپر 5سو بھٹیوں پر40ہزار سے زائد مزدور کام کررہے ہیں جو اب بے روزگار ہیں اینٹوں کی صنعت کو تقریبا3ارب 50کروڑ سے زائد کانقصان پہنچا ہے . وہ کہتے ہیں کہ اینٹ کی بھٹیاں کوئٹہ کے علاقے کچلاک،پشین کے علاقے یارو،مستونگ کے علاقے دشت تیرہ میل اور سپیرزنڈ،نصیرآباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی اور ضلع سبی میں واقع ہے کوئٹہ میں سردی آنے تک کام جاری رہتا تھا لیکن اب شایدایسا نظر نہیں آتا کیونکہ اب کوئٹہ میں سردی شروع ہوگی تو بھٹیوں میں کام بند ہوگا بھٹہ مالکان شاید اگلے سال تک انتظار کرے .
ملک کامران خان مہترزئی سے جب زگ زیگ سسٹم پر منتقلی بارے سوال کیاگیاتو ان کاکہناتھاکہ جدید نظام پر منتقلی میں بعض چیزیں رکاوٹ ہے جیسے کہ بجلی وغیرہ اگر حکومت بجلی کی فراہمی یقینی بناتی ہے توبھٹہ مالکان کو کوئی اعتراض نہیں ہے . بھٹیوں کوزگ زیگ سسٹم پر منتقلی سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہوگی تو خوش آئند بات ہے لیکن بھٹی کی زگ زیگ طرز پر منتقلی کیلئے بجلی یا اس کے متبادل سولر سسٹم کے علاوہ جدید مشینری درکار ہے اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ ماحول کو فضائی آلودگی سے بچانے کیلئے حکومت آسان اقساط پر قرضے یا پھر مشینری فراہم کی جائے اور بجلی کے متبادل کے طور پر شمسی توانائی کا نظام مہیا کرے تاکہ بجلی کی ضرورت کو پورا کیاجاسکے . مسئلہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف اینٹوں کے لیے درکار مٹی بلکہ پہلے سے بنائی گئی اینٹیں بھی پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور نقل و حمل کے راستے بھی محدود ہو کر رہ گئے ہیں .

. .

متعلقہ خبریں