قدبھی نہیں ہے ۔جانیں ایک معذورلڑکی کی کہانی جولوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود ایک مشہورشخصیت بن گئیں
(قدرت روزنامہ)انسان کی زندگی میں معذوری کسی قیامت سےکم نہیں مگر وہ وقت کے ساتھ جیناسیکھ لیتے ہیں اورمعاشرے میں ایسابھی دیکھاگیاہے کہ معذورا فراد اس چیز کواپنی ک مزوری بننے نہیں دیتے بلکہ ڈٹ کردنیاکی مشکلا ت کاسامناکرتے ہیں پاکستان میں ایسے بہت سے فائونڈیشنز اپنے فرائج انجام دے رہے ہیں جنہوں نے اپاہج افرادکابیڑہ اٹھاہواہے علاوہ ازیں بہت سے معذورافرادڈاکٹروں سے علاج کروانےمیں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔اوراسی طرح زندگی گزاررہے ہیں لیکن سب کیسزمیں
ایسانہیں ہوتا۔آج ہم جن خاتون کی کہانی سنانے جارہے ہیں وہ برٹل بون نامی بیماری میںمبتلاہیں جس میں مریض کے جسم کی ہڈیاں اس قدرکمزورہوجاتی ہیں کہ ان کی نشوونمانہ ہونے کے برابررہتی ہے اوروہ ہلکے سے دبائو سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔مذکورہ خاتون کانام زہرہ یعقوب ہے جواپنی زندگی کے انتہائی مشکل د نوں سے گزررہی ہیںلیکن ساتھ ہی وہ ہمت کی اعلی ٰمثال ہیں ۔کوئی کہتاتھااس کوہاتھی کے انڈے کھلائوکوئی کہتاتھابی بی کیاتم روز اس کواٹھاکرلے آتی ہواس نے زیادہ دن زندہ نہیں رہنا کیوں اس پرپیسے ضائع کررہی ہو۔معذورانسان کی زندگی کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی مگر وہ وقت کے ساتھ جیناسیکھ لیتے ہیں اورمعاشرے میں ایسادیکھابھی گیاہے معذورافراد اس چیز کواپنی کمزوری بننے نہیں دیتے بلکہ ڈٹ کردنیاکی مشکلات کاسامناکرتے ہیں۔پاکستان میں ایسے بہت سے فائونڈیشنز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جنہوں نے اپاہج افرادکابیڑہ اٹھایاہواہےعلاوہ ازیں بہت سے معذور افرادڈاکٹروں سے علاج کروانے میںمصروف دکھائی دیتے ہیں اوراسی طرح زندگی گزاررہے ہیں لیکن سب کیسز میں ایسانہیں ہوتا۔زہرہ یعقوب سوشل میڈیاایکٹیوسٹ ہیں اوران کے والد سرکاری ٹی وی میں ملازمت کرتے ہیںجبکہ ان کی والدہ گھرکی دیکھ بھال کاکام سنبھالتی ہیں۔زہرہ کی والدہ اپنی بیٹی سے انتہائی محبت کرتی ہیں جب بھی زہرہ کی ٹانگوں پردبائوپڑتاہے توان کی والدہ فوراً انہیں لے کرہسپتال کی جانب دوڑ پڑتیں ۔ڈاکٹرہڈی جوڑ دیتے اورانہیں وقتی طورپرآرام آجاتاہے ۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بیماری کاڈاکٹروں کے پاس ایساکوئی علاج نہیں تھاکہ وہ زہرہ کی ہڈیاں مستقل طورپرٹوٹنے سے بچاسکیں ۔مکمل طور پر جسم نشو نما نہ پانے کے باعث ان کا قد بھی نہیں بڑھ سکا۔ ان کا قد نو، دس برس کی عمر تک بھی بمشکل ایک فٹ کے قریب تھا کئی دفعہ ٹوٹنے اور جڑنے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں نہ تو سیدھی ہو سکتی تھیںاور نہ ہی حرکت کر سکتی تھیں۔زہرہ کی والدہ برطانوی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ زہرہ کے علاج کے لئے جب وہ اسپتال جاتی ہیں تو ڈاکٹرز انہیں یہ کہتے ہیں اس بیماری کا کوئی علاج نہیں آپ بلاوجہ اس پر پیسہ خرچ کر رہی ہیں ، یہاں تک کہ ڈاکٹرز اس کا مذاق بھی اڑاتے۔زہرہ اور انکے اہلخانہ لاہور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ایک چھوٹے سے دو کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ گھر کے مرکزی کمرے میں ایک بڑے سے پلنگ پرزہرہ لیٹی بیٹھی ہوتی ہیں وہ چل نہیں سکتیں۔ پلنگ کے ساتھ ہی ان کی ایک وہیل چیئر کھڑی ہوتی ہے۔ باہمت خاتون زہرہ انی پلنگ پر بیٹھی اپنا میک اپ کرتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں میک آپ کا بہت شوق ہے۔وہ اپنی تصویر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پرشیئر کردیتی ہیں اور ان کے مطابق ان کی ہر تصویر وائرل ہوجاتی ہے اور ہزاروں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ان کی لوگوں تک اسی پہنچ کی وجہ سے ان کا شمار سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔زہرہ نے انسٹاگرام اکاؤنٹ بھی بنایا ہواہے جس میں وہ اپنی “انسٹا فیملی کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اپنے اکاؤنٹ پر تصاویراپ لوڈ کرتی ہیں اور ویڈیوز بھی اپ لوڈ کرتی ہیں۔زہرہ کو معلوم ہے وہ کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکیں گی لیکن ایسا نہیں کہ ان کا دل ہی نہیں چاہتا۔ جب کبھی ان کا چلنے کا شدت سے دل چاہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر کے تصور کر لیتی ہیں۔ “میں سوچ لیتی ہوں کہ وہیل چیئر خود چلا رہی ہوں یا میرے قدم زمین پر ہیں اور میں آگے کو بڑھ رہی ہوں۔