پیپلز پارٹی بلوچستان میں انقلابی ابھار
تحریر:- بشیر نیچاری
پاکستان پیپلز پارٹی کی جنم محنت کشوں کی انقلابی تحریک کی خمیر سے ہوئی ذوالفقار علی بھٹو نے مختصر مدت میں اس تحریک کو ایک خوبصورت پارٹی میں بدل کر ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا_ آج 54 سال بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی محنت کش طبقہ کی روایات ہے _اس ملک میں جب بھی محنت کش طبقہ انقلابی انگڑئی لیتی ہے- تو سب سے پہلے اپنے روایتی پارٹی کی طرف رجوع کر لیتی ہے- آج بلوچستان میں پسماندگی دہشتگردی لاقانونیت بےروزگاری غربت ناخوندگی اور مہنگائی سے تنگ عوام نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریہ جدوجہد اور قیادت سے متاثر ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی پر بھر پور بھروسہ کرکے ہواوں کا رخ موڑ دیا ہے -عوامی ابھار نے بلوچستان کے الیکٹیبلز کو بھی پیپلز پارٹی کے طرف آنے پر مجبور کیا ہے اور آنے والے دنوں میں بلوچستان بھر سے مزید الیکٹیبلز سیاسی کارکن اور قباہلی عماہدین سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونگے- پیپلزپارٹی بلوچستان میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر سامنے آرہی ہے-
اور خاص کر نوجوانوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے- جیونی سے شیرانی تک شہید ذوالفقارعلی بھٹو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جیالے سپاہیوں نے اپنے مستقل مزاجی استقامت اور سچے نظریے سے ثابت کیا ہے- کہ تاریخ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے تلو چاٹنے والوں کی نہیں آج بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے- کے نعروں کی گونج نے ایوانوں پر کپکپی طاری کیا ہے- اس جیت کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنوں رہنماوں کو جاتا ہے- جن میں صادق عمرانی سردار سربلندخان جوگیزئی نعیم بلوچ صابر بلوچ بسم اللہ کاکڑ حاجی فاروق سمالانی روزی خان کاکڑ جمال خان جوگیزئی رفیق سجاد سید اقبال شاہ ڈاکٹر برکت بلوچ علی مدد جتک حاجی عبد اللہ موسی زائی عبدالغفور کھیازئی قاسم علیزئی شیرباز ساسولی سردار عمر گورگیج ظاہر موسیٰ خیل رحمت کدیزئی ملک عصمت اللہ ثناء اللہ جتک سجادزیب انیس کشمیری حبیب قادر محراب خان کاکڑ یعقوب زیارتوال یسین ترین حاجی زمان کدیزئی غلام جان حسن زئی شریف پالاری برکت نادر اشفاق بلوچ میر منور لانگو اور مرحوم ڈاکٹر آیات اللہ درانی شہید خلیل سمالانی مرحوم ہدایت اللہ پیرزادہ شہید فضل الرحمٰن کاکڑ مرحوم سید منظور شاہ مرحوم دین محمد سومرو مرحوم سیف اللہ خان پراچہ ماما ستار گچکی کامریڈ علی باران سمیت دیگر ہزاروں جیالوں کی سر سجتا ہے- موجودہ کامیابی میں ان رہنماوں کا خون پسینہ شامل ہے آج ان کی یہ کامیابی بھٹوازم کی حقیقی نظریاتی جیت ہے- جہد مسلسل سے انسانیت کو پاہیہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے- پسماندگی کی تاریکیوں میں مین اسٹریم پارٹی کو ملنے والے کامیابی روشن سویرے کی نوید ہے 2023 کے انتخابات میں قوی امید ہے- کہ بلوچستان سے سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر پیپلز پارٹی ابھر کر سامنے آہیگی- ویسے بھی ہواوں کا رخ بتا رہا ہے- بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی ہاتھوں میں جارہا ہے اس مرتبہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو روکنے کے لیے گرینڈ الائنس پر دیگر جماعتیں غور کر رہے ہیں- جن میں خاص کر پی ڈی ایم اپنے ساکھ کو صوبے میں بچانے کی بھرپور کوششوں میں ہے مگر لگتا ایسا ہے- کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیابیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوگی اور بلوچستان کی حکومت پر جیالے ہی براجمان ہونگے اور انتخابات قریب ہوتے ہی مزید پنچیاں اڑ کر اس جھنڈ میں شامل ہونگے – مگر اس دوران علاقائی اور صوبائی قیادت کی کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہونگے- کہ وہ اپنے انقلابی نظریات سے نئے شامل ہونے والوں تک کیسے پہنچاہیں- گے اگر قیادت نے نظریاتی کیڈرز کو یہ ذمہ داری سونپی تو بھٹوازم کا انقلابی منشور بلوچستان کے نوجوانوں محنت کش طبقہ تک پہنچانے میں کامیاب وکامران ہونگے- بلوچستان میں پیپلز پارٹی سندھ سے زیادہ منظم اور مضبوط ہو گی- اب اتنی بڑی کامیابی کو سمیٹنے کے لیے تنظیمی امور کو ری آرگنائز کرکے سیاستدانوں کے بجائے کیڈرز کو آگے لانا ہوگا تاکہ یہ سمندر کی موجوں کو سنبھال سکیں- اگر اس مرتبہ پھر تنظیم 2008 والے اقتدار کی طرح سیاستدانوں پسند نا پسند کے ہتھے چڑ گیا- تو پارٹی کے کمیٹڈ کارکن ایک طرف ہونگے اور الیکشن سے پہلے پارٹی کو ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا- امید ہے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اس مرتبہ بلوچستان کی سیاست پر خاص نظر رکھیں گے- اور تنظیمی امور پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں گے اس مرتبہ جیالوں کو ذمہ داری کارکردگی کی بنیاد پر دیئے جائیں گے- مرکزی قیادت کی توجہ بلوچستان پر رہی تو یہاں کے وفادار بلوچ اور پشتون آخر تک وفاداریاں نھباہیں گے۔