ہم اپنی ماں سے اتنے سال محروم رہے اور وہ ہمیں یاد کر کے روتی رہیں ۔۔ سگی ماں سے بیٹیوں کا کئی سال بعد کیسے رابطہ ہوا؟

کراچی (قدرت روزنامہ)اپنے کسی پیارے سے بچھڑ جانے کا خیال ایک خوفناک خواب سا لگتا ہے لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں ایسی صورتحال بھی پیدا ہوچکی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے بچپن میں بچھڑے اور ان کی ملاقات کئی سال بعد ہوئی۔ وہیں بہت سے لوگوں کی ملاقات کبھی نہ ہوسکی۔آج ایک ایسا واقعہ آپ کو بتانے جا رہے ہیں جس میں سگی بیٹیاں 51 سال پہلے اپنی ماں سے بچھڑیں اور اب ان کی ملاقات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوگئی۔ بیٹیاں اس وقت بنگلادیش میں مقیم ہیں جبکہ والدہ کراچی میں رہتی ہیں۔ بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بیٹی ام مرسلینہ نے کہا کہ سنہ 2009 میں ابو نے اپنی وفات سے پہلے ہمیں بتایا کہ ہماری امی کراچی پاکستان کی رہنے والی ہیں اور ہم بہنیں بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ اس سے قبل ہمیں اپنی امی کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

اس موقع پر انھوں نے ہمیں کہا کہ اگر اس کو تلاش کر سکتی ہو تو ضرور کرلینا۔ابو کے انتقال کے بعد ہمیں پھوپھی سے اپنی امی کے ساتھ بچپن کی تصویر ملی تھی۔ ہماری واپنی والدہ سے ملنے کی بہت خواہش ہے اور چاہتی ہیں کہ ان سے گلے ملیں اور ان کی بھرپور خدمت کریں۔ام مرسلینہ اور ام تسلیمہ دونوں بہنیں انتہائی تکلیف دہ حالات میں 1971 میں اپنی ماں سے بچھڑ گئی تھیں۔ اس وقت ان کی عمریں صرف چار اور دو سال تھیں۔ کئی سال تک تو یہ دونوں یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ان کی والدہ حیات ہیں بھی یا نہیں۔ اتنے سال کے بعد ان کا اپنی سگی ماں سے پہلا رابطہ اس سال اکتوبر میں ہوا۔ام مرسلینہ بڑی جبکہ ام تسلیمہ چھوٹی بہن ہیں اور اس وقت ڈنمارک میں مقیم ہیں۔ام تسلیمہ کہتی ہیں کہ یہ کتنی دکھ کی بات ہے کہ ہم اپنی ماں چمن آرا کے لمس سے اتنے سال تک محروم رہے اور وہ ہمیں یاد کرکے روتی رہیں۔’ہم بہنیں اس وقت نانیاں اور دادیاں بن چکی ہیں۔ ہم سمجھ سکتی ہیں کہ ایک ماں اپنی بیٹیوں کو کھو کر کتنی دکھی ہوئی ہو گی۔

51 سال پہلے بچھڑی ہوئی ماں بیٹیوں کا آپس میں کیسے رابطہ ہوا؟ ام مرسلینہ کہتی ہیں کہ ان کے والد انھیں ان کی والدہ کے بارے میں بتانے کے کچھ دن بعد فوت ہو گئے تھے۔ شاید وہ اس ہی راز کو بتانے کے لیے زندہ تھے۔ وہ بہت علیل تھے، میں نے اس لیے ان سے زیادہ بات نہیں کی تھی۔ پھر میں نے اپنی چھوٹی بہن کو یہ بات بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور چھوٹی بہن مل کر کئی گھنٹوں تک روتے رہے اور اپنی ماں کے بارے میں سوچتے رہے۔ ہمارا دل کہتا تھا کہ وہ زندہ ہیں اور ہماری راہ تک رہی ہیں مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس امی کی نہ تو کوئی تصویر تھی اور نہ کوئی شناخت۔ ام مرسلینہ کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے ہمت کر کے اپنی پھوپھی سے پوچھ لیا تو انھوں نے مجھے امی کی ایک دو پرانی تصاویر دیں جس کے بعد ہم نے ان کی تلاش شروع کردی۔ اس تلاش میں میرے داماد نیت اللہ قاضی نے میری مدد کی تھی۔ وہ امی کی تصاویر کو پاکستان بھجواتے اور لوگوں سے بات کرتے تھے۔ پاکستان میں ولی اللہ معروف سے ان کا رابطہ ہوا تھا۔ ولی اللہ معروف پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نیت اللہ قاضی سے رابطہ ہوا۔ انھوں نے سارا واقعہ سنایا تو میں نے اپنے طریقے سے تلاش کا کام شروع کر دیا۔

ولی اللہ معروف کے مطابق نیت اللہ قاضی گذشتہ کئی سال سے کوشش کررہے تھے مگر انھیں کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ میں نے اپنے سوشل میڈیا پر چمن آرا اور ان کی دونوں بیٹیوں کی کہانی لکھ کر تلاش میں مدد کی گزارش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا سے یہ کہانی واٹس ایپ گروپس تک پہنچ گئی۔ ایسے ہی ایک گروپ میں چمن آرا کے بھانجے سید عرفان بھی موجود تھے جنھوں نے جب یہ پڑھا تو بتایا کہ یہ کہانی تو ان کی خالہ کی ہے اور وہ حیات ہیں۔ ولی اللہ معروف کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ان کے گھر گئے، جہاں بیٹیوں کی والدہ چمن آرا کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ وہ تمام معلومات حرف بہ حرف وہ ہی تھیں جو بنگلہ دیش میں ان کی بیٹیوں نے بتائی تھیں۔ اس کے بعد چمن آرا کو تصویر دکھائی۔ وہ تصویر ان کے رشتے داروں نے دیکھی، سب نے کہا کہ یہ تصویر کئی سال پہلے چمن آرا ہی کی ہے۔ اس کے بعد ماں اور بیٹیوں کی بات ہوئی۔ انھوں نے وڈیوکال پر ایک دوسرے کو دیکھا اور سکھ کا سانس لیا۔