پیپلز پارٹی کا قیام اغراض و مقاصد

تحریر بشیر نیچاری
55سال قبل ایک عظیم سفر کا آغاز ہوا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہیں اور عوامی پارٹی بن گئی۔ پارٹی کا پہلا تاسیسی کنونشن میں بلیوارڈ گلبرگ لاہور میں واقع ڈاکٹر مبشر حسین کے 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کے درمیانی شب کو ہوا تھا پارٹی کے بنیادی دستاویزات شہید ذوالفقارعلی بھٹواور جے اے رحیم نے فرانس، پیرس تحریر مرتب کر لی انہیں ڈاکٹر مبشر حسین جو کہ پرنسپل ممبی کا ممبر تھا اور طویل بحث مباحثوں کے بعد حتمی شکل دی اس کنونشن میں شریک افراد کی تعداد اس بات سے باخبر تھی وه ایک نئی زندگی رقم کرنے جارہے ہیں اس کنونشن میں منظوری کے لئے پیش کر دیا ۔ پارٹی کے قیام کا مقصد اور ہدف سماجی سوشلسٹ تبدیلی قرار دیا پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات قرار دیا پارٹی پالیسی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے حلقوں میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد قائد عوام شہید زوالفقار علی بھٹو نے ملک کے کونے کونے کے طوفانی دورے کئے لاہور موچی دروازے پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد عوام نے 3 گھنٹے 10 منٹ کی طویل تقرر میں انہوں نے اسلامی سوشلزم اور جمہور یت سرمایہ داری اور جاگیر داری کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی اور دلائل سے ثابت کیا وہ اسلامی سوشلزم کے تھے تھے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی عوام سے 1965ء کی جنگ میں تعارف ہوئے ان کی سلامتی کونسل میں کی گئی تقریروں میں عوام پر ایساسحر کر طاری کیا آج کی جذباتی لیڈر کی ہوتی ہے تو نام ذوالفقار علی بھٹو لکھا جاتا ہے۔ جوش کا ایسادر یا چڑھا تھا پھر اتراہی شاید ہمار ےاجتماع لاشعور میں ۔ جنگ اور فتوحات کا جذبہ اتنا شدید ہے جس نے ان تقریروں کودل کے بہت قریب محسوس کیا اور ہمیں لگا کہ یہی وہ لیڈر ہے جو اس قوم کو چاہئے اور یہی وہ جملہ جو ہماری تاریخ اور روایت کا حصہ بن جائیں گے یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہماری آئندہ نسلیں فخر سے سینہ چوڑا کر کے چلیں گے ان کا یہ جملہ ہماری تاریخی سیاست کا حصہ بن گیا 1970کے الیکشن سے پہلے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے چار اصول طے کئے 1 اسلام ہمارا دین ہے – 2 جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
3سوشلزم ہماری معیشت ہے 4 طاقت کا سرچشمہ عام ہے اور وہ اس میں شہید بے نظیر بھٹو ایک جملہ کا اضافہ کیا کہ 5شہادت ہماری آرزو ہے انہوں نےکہا کہ ملک کے معروض حالات ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوامی منشور بنایا تھا تا کہ پاکستانی معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکیں پیداوار پر جاگیر داروں کی گرفت ڈھیلی کرنے کے لئے زرعی اصلاحات کے نفاذ مزدوروں کی معاشی آسودگی سرمایہ کے ارکاز کی روک تھام کے لئے سوشل سیکورٹی سسٹم کا قیام اور آئین کے ذریعے مزدوروں کے حقوق تسلیم کیا جنا عام آدی کی عزت نفس کی بحالی معاشرتی ناہمواری کا خاتمہ ووٹ کا بنیادی تسلیم کیا جانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے شکست خورده قوم کی قیادت سنھبالی چند ماہ کے بعد ایک عبوری آئین دے کر ملک کو جمہوریت دی اور پھر 1973 کا آئین دیکر پہلا متفقہ قومی آئین دیا پاکستانی قوم کا پہلاتحریری میثاق تھا جو ہمیشہ مارشل لاؤں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھاتا رہا ہر آمر اس آئین پر شب خون مار تا تھا نتیجہ یہ ہے کہ آج اس آئین کی شکل بھی تبدیل ہو چکی ہے قائد عوام نے جب انتخابی مہم شروع کی تو اس موقع پر پرائیویٹ سیکٹر میں صرف اخبار ورسائل موجود تھے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا میڈیا ٹرائل شروع ہوا جو کم از کم چوتھائی صدی تک چلا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو 5 جولائی 1971 کی شب کو بھٹو کی حکومت کا کاغذات کو جنرل ضیا الحق آمر نے مارشل لاء لگایا قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک متنازعہ کیس میں پھانسی کی سزا دی گئی دنیا بھر کی اقوام عالم کےسربراہوں مملکت اور تمام بڑے لیڈر اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے قائد عوام شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف اس وقت کے حکمران عامر ضیاء الحق کو اپیل کی اور معافی کی درخواست کی مگر شہادت قربانی کی بنیاد رکھنا بھٹو خاندان کا مقصد بن گئی اور پھر بھٹو شہید نے از خود تاریخی معافی اور حاکم وقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا – 18 فروری 1978 کوصبح 8 بجکر 20 منٹ پر بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان نے مجرم قرار دیا جس پر موت کی سزاسنادی گئی اس دوران بیگم نصرت بھٹو مرحومہ لا ہور میں نظر بندی اپنے شوہر کو سنائی جانے والی سزا ان پر بجلی بن کر گری اور بھٹو صاحب کو سزا سنائے جانے کے چند گھنٹوں بعد ملک بھر کے ہزاروں کارکنوں اور بھٹوکے حامیوں کو گرفتار کر لیا تھا 18 اکتوبر 1977ء کے بعد ایف ایس ایس ایف کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور مقد مہ قتل میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود نے ہائی کورٹ کو بتایا وعدہ معاف گواہ جو کہ نواب محمد احمد خان قتل کرنے کا حکم بھٹو نے دیا چنانچہ لاہور ہائیکورٹ نے بھٹو کو سزائے موت سنا دی 16 ستمبر 1978ء کو چوہدری فضل ہی کو صدارت کے عہدے سے فارغ کرکے پھانسی دینے کے خلاف اپیل صدر کے پاس بھیجی سپریم کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کو سزائے موت سنائی 3 اپریل 1979ء کو بیگم نصرت بھٹو اورمحترمہ بینظیر بھٹو کی ذوالفقارعلی بھٹو سے آخری ملاقات ہوئی 4 اپریل میں 1979 کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھادیا 10بجے ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ان کی بیگم مرحومہ نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کو آ خری دیداربھی کرنے نہیں دیا گیا۔ آج قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت سے لے کر پاک وطن کی فضاؤں میں گونج رہا ہے اور گونجتا رہے گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو زندہ تھے مرتضی بھٹو کی صورت میں شاہ نواز کی صورت میں اور شہید جمہور یت بینظیر بھٹو کی صورت میں آج زندہ ہے بلاول بھٹو کی صورت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ہونے والی خلا کوممکنہ حد تک پر کر سکتے ہیں 70 کلفٹن کے پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنوں اور بھٹو خاندان کی تصویر آویزاں تھی کسے خبر تھی کہ ایک دن محترمہ بنظیر بھٹو شہید بھی اس صف میں جگہ پائے گی ۔ سیاسی اصطلاح میں بھٹو آج بھی کہاجاتا ہے پاکستان کی ۔ تاریخ میں پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس نے 3 سے 4 مرتبہ کامیابی حاصل کی اور اپنے دور میں عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کے لئے عملی اقدام کئے یہ ملک مسلسل آمریت کے تسلط میں رہا اور جہاں آمروں نے ملک کو جمہور یت نظام کو بار بار پٹری سےاتارنے کی بار بار کوششیں کیں جو تاریخ میں کبھی بھلا نہیں سکتے جنوبی ایشیاء کا کوئی بڑا لیڈر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی بصیرت کا مقابلہ نہیں کرسکتا قائد عوام اور قائد جمہور یت نے سیاسی ورکرز میں جو عشق پیدا کیا وہ کبھی بھٹو ازم کو بھلا نہیں سکتے ۔ آج بھی اپنے نو جوان قائد بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ شانہ بشانہ ہیں تاریخ میں آمروں کے نام و نشان مٹ گئے لیکن بھٹو کا نام عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔