فضل الرحمان کا انتخابات ملتوی کرنے کا بیان قابل قدر ہے، رانا ثنا اللہ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کا فضل الرحمان کا بیان قابل قدر ہے، ایسے حالات میں کم از کم انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں، عمران خان کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا ورنہ ہم پیش کردیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلع کچھی سب میں بلوچستان کانسٹیبلری پر صبح دس بجے حملہ کیا گیا جو کہ خود کش تھا، موٹر سائیکل سوار سیکیورٹی اہل کاروں کی گاڑی سے ٹکرایا جوکہ خودکش بمبار تھا، حملے میں نو شہادتیں ہوئیں، ایک سویلین راہ گیر زخمی ہوا جس سمیت تیرہ زخمی ہوئے ان سے تین کی حالت تشویش ناک ہے جس کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، ابھی تک کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی معاملات میں بلوچستان حکومت کی مدد کریں گے، ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود سیکیورٹی معاملات میں نہ پہلے کوئی مالی کٹوتی کی تھی اور نہ اب کریں گے، صوبائی حکومتوں کو وسائل دیے جارہے ہیں وہ دیے جاتے رہیں گے، اپیکس کمیٹی میں صوبوں نے جن جن ضرورتوں کا اظہار کیا انہیں فوری طور پر پورا کررہے ہیں۔
انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے پولیس کی بدسلوکی کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ واقعہ قابل مذمت ہے اس کی انکوائری جاری ہے رپورٹ عدالت میں پیش کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے کے بیان کے سوال پر انہوں ںے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کے سینئر قائد ہیں یہ ان کی رائے ہے اس رائے پر پی ڈی ایم کا اجلاس ہونے جارہا ہے، اگر پی ڈی ایم اس رائے کو مسترد کرتی ہے تو وفاقی حکومت کا بیان بھی سامنے آئے گا، ان کی رائے قابل قدر ہے، کے پی اور بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں، ان حالات میں ان کی رائے بے محل نہیں اس میں وزن ہے، اس صورتحال میں کم از کم انتخابی مہم چلانا تو ممکن ہی نہیں۔
انہوں ںے کہا کہ الیکشن کرانا یا نہ کرانا حکومت کا نہیں الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے، اگر وہ فیصلہ کرلے کہ مہم نہیں چلے گی تو نہیں چلے گی، اگر وہ پابندیاں لگادے تو اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کل پولیس ٹیم عمران خان کی گرفتاری کے لیے گئی تھی پی ٹی آئی والوں نے بہت ڈرامہ کیا، عمران خان دیوار پھلانگ کر ہمسائے کے گھر چلا گیا اور کہا گیا کہ عمران خان یہاں نہیں پھر اس نے واپس آکر وہاں لمبی تقریر شروع کردی۔
انہوں نے کہا کہ دراصل پولیس انہیں گرفتار کرنے نہیں بلکہ عدالتی حکم سے آگاہ کرنے اور عدالت میں پیش کرنے گئی تھی انہیں تعاون کرنا چاہیے تھا، عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے پولیس گئی تھی جس پر ڈرامے رات تک جاری رہے، جس دن عمران خان کو گرفتار کرنا ہوا اور پیش کرنا ہوا تو انہیں عدالت میں پیش کردیا جائے وہ دن زیادہ دور نہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کچھ چیزیں بہت واضح ہے، عمران خان نے قومی خزانے کو 50 ارب روپے کا ٹیکا لگایا اور ضبط کی گئی رقم ایک پراپرٹی ٹائیکون کے اکاونٹ میں دوبارہ بھجوادی، پانچ ارب روپے کی چار سو یا ساڑھے چار سو کنال اراضی القادر ٹرسٹ کے نام کی جس کے ٹرسٹی صرف دو افراد ہیں ایک عمران خان اور دوسرا ان کی اہلیہ۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ڈھائی سو کنال اراضی فرح گوگی کے نام ہے جس کا نام پی ایم ہاؤس میں بحیثیت فیملی ممبر درج تھا اور اس پر کوئی سیکیورٹی نہیں تھی جس نے اربوں روپے باہر منتقل کیے، اس کی رقم بیرون ملک منتقلی کی تاریخیں بھی سامنے آگئی ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا نے کہا کہ عمران خان کہہ دیں کہ القادر ٹرسٹ کی رجسٹری جعلی ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے لیکن اس نے ایک بار بھی جواب نہیں دیا، توشہ خان کی چوری ڈاکیومنٹڈ ہے، جس کی جعلی رسیدیں موجود ہیں لیکن عمران خان نے اس پر کوئی بات نہیں اور ڈھٹائی سے کہا کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب عمران خان کو ان باتوں کا جواب دینا ہوگا، ہمیں عمران خان کو گرفتار کرنے کا کوئی شوق نہیں بس عدالتوں میں پیش ہو اور اسے جواب دے، عدالت بری کردے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، عمران خان کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا ورنہ اسے پیش کردیا جائے گا۔
صحافی نے سوال کیا کہ فرح گوگی آپ کے قریبی دوستی اقبال گجر کی بہو ہیں اور پہلے بھی انہیں آپ کی وزرات داخلہ کے دور میں ای سی ایل سے نام نکال کر باہر بھیجا گیا تو آپ اسے واپس لے آئیں۔ اس سوال پر رانا ثنا نے جواب دیا کہ ای سی ایل سے نام نکال کر اسے باہر نہیں بھیجا گیا وہ غیر قانونی طریقے سے فرار ہوئی، اگر وہ کسی کی بہو ہے تو وہ الگ بات ہے اس نے جو پیسہ کمایا وہ سسر کو نہیں عمران خان کو دیا اس لیے ذمہ داری عمران خان پر ہے کسی اور پر نہیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اربوں ڈالر پنجاب سے پشاور سیکیورٹی وین میں جاتے ہیں؟ اس سوال پر رانا ثنا نے کہا کہ لوگوں نے کاروبار چھوڑ کر ڈالر خریدنے شروع کردیے ہیں، تمام کوششوں کے باوجود ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کو نہیں روک سکے جس کی وجہ سے ڈالر کا بحران پیدا ہوا۔انہوں ںے مزید کہا کہ ملک میں ڈالر کا ریٹ اور ہے اور افغان بارڈر پر ریٹ اور ہے اور یہ فرق روپے دو روپے کا نہیں بہت بڑا فرق ہے اسی لیے سپلائی کا رخ اس طرف مڑ جاتا ہے، ڈار صاحب کا اس میں کوئی قصور نہیں ملکی حالات ہی ایسے ہیں۔
عدالتی حکم کی تعمیل میں پولیس وہاں گئی تھی، انہیں گرفتار کرنے کا طریقہ کار اپنایا نہیں گیا ورنہ صورتحال کچھ اور ہوتی، پولیس کے وہاں جانے سے دو چیزیں پوری ہوئی، عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے مخلص کوشش کی اور عمران خان کو اگلی پیشی کے لیے بھرپور طریقے سے آگاہ کردیا ہے اور اگر وہ پیش نہ ہوئے تو طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔