اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، ایس آئی ایف سی کا یہ مقصد حاصل ہوپائے گا؟
کراچی(قدرت روزنامہ) حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد دوست ممالک قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور آرمی چیف پر مشتمل ہو گا اور اس نے کچھ مقاصد طے کیے ہیں، کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنا،نئے صنعتی کلسٹرز کا قیام، اور پالیسی میں ہم آہنگی حاصل کرنا۔
ایس آئی ایف سی کی تشکیل سے پہلے یہ مقاصد مختلف اداروں، وزارتوں اور اداروں کے دائرہ کار میں آتے تھے جن میں بورڈ آف انوسٹمنٹ، مشترکہ مفادات کی کونسل، وزیر اعظم کا دفتر، وزارت صنعت، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت تجارت، اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی وغیرہ،اس اعلیٰ ادارے میں آرمی چیف کی شمولیت سب سے اہمیت کی حامل ہے ،وزیر اعظم نے معاشی بحالی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اسٹینڈ بائی معاہدے کو آرمی چیف سے منسوب کیا۔اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے قیام کا مقصد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو ملک میں لانا ہے لیکن کیا یہ مقصد حاصل ہوپائے گا؟ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں چین کے دو ماڈلز ہمارے سامنے ہیں۔
پہلا ماڈل ہمیں پاک چین اقتصادی راہدی کے تحت بجلی کے منصوبوں میں کارفرما نظر آتا ہے کہ جہاں بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی اور جس میں منافع کے لیے بیرونی اور ملکی ضمانتیں بھی فراہم کی گئیں۔اس بجلی کو استعمال کرنے والے صارفین سے محاصل پاکستانی روپوں میں حاصل کیا گیا جبکہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو ادائیگی ڈالرز میں ادا کی گئی ،دوسرا ماڈل چین کی جانب سے پاکستانی صنعتوں میں سرمایہ کاری کا ہے، جس کا مقصد پیداوار اور پیداواری استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئی نوکریاں پیدا کرنا اور برآمدات میں اضافہ ہے۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک چینی لاہور کے نواح میں قصور کے نزدیک ایک صنعتی علاقے کے لیے 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کار ارادہ رکھتی ہے، جس میں ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ دیگر جدید ترین شعبوں کا قیام ہے جس کے ذریعے کھیلوں میں پہنے جانے ہونے والے کپڑے تیار کرکے انہیں امریکا، یورپ، اور دیگر ممالک کو برآمد کیے جائیں گے۔
پاکستان بزنس کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت اب تک سی پیک کے ذریعے مقامی سرمایہ کاروں یا دیگر غیر چینی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہے۔چین کی جانب سے بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری دو طرح سے کی گئیں، پہلے ماڈل کے تحت صارفین تک رسائی حاصل کرنا تھا جس کے ذریعے حکومت پاکستان سے مالی معاونت بھی حاصل کی گئی تاہم اس ماڈل میں حکومت پاکستان کو ڈالرز میں ادائیگی کرنا پڑرہی ہے جبکہ ڈالرز کی صورت میں سرمایہ کاری کا حجم اس سے کہیں کم ہے۔
دوسرے ماڈل کے تحت مقامی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کرتے ہوئے بین الاقوامی تک رسائی حاصل کی جاسکے، اس ماڈل میں نہ صرف حکومت پاکستان کو زرمبادلہ کی صورت میں ڈالرز حاصل ہورہے ہیں بلکہ سرمایہ کاروں کو ڈالرز میں ادائیگی میں بھی آسانی ہے۔
پاکستان کے لیے اب یہ بات ضروری ہے کہ وہ مزید کسی بھی ایسے انفرا اسٹرکچر منصوبوں کا آغاز نہ کرے جو سرکاری اور نجی شعبے کے باہمی تعاون سے ہو اور جس کا بوجھ مزید قرضوں کی صورت میں ملک کو اٹھانا پڑے اور ایسے منصوبوں میں کی گئی سرمایہ کاری الٹا بوجھ بن جائے ۔