سائفر کا معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور یہ عمران خان تک کیسے پہنچا ؟ سینئر صحافی حامد میر نے اندرونی کہانی پہلی مرتبہ بے نقاب کر دی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سابق پرنسپل سیکریٹر ی اعظم خان کے اعترافی بیان نے سیاست میں ایک نیا بھونچال کھڑا کر دیاہے جس پر عمران خان کا رد عمل بھی آ گیا ہے جسے اگر یہ کہاجائے کہ وہ یقین نہیں کر پا رہے تو غلط نہ ہو گا تاہم اس معاملے پر سینئر صحافی حامد میر نے بھی زبان کے تالے کھول دیئے ہیں اور اندرونی کہانی عوام کے سامنے رکھ دی ہے ۔
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق سینئر صحافی حامد میر نے اعظم خان کے اعترافی بیان کے معاملے پر حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو بتایا کہ ایک سائفر ہے اس پر اعظم خان نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود وزیراعظم کو اس حوالے سے زبانی کچھ چیزیں بتاچکے ہیں۔حامد میر نے بتایا کہ یہ سائفر اعظم خان کے حوالے کیا گیا، اعظم خان نے 9 مارچ کو عمران خان کو یہ سائفر دکھایا جس کے بعد عمران خان نے یہ سائفر اپنی تحویل میں لے لیا، اعظم خان نے وزیراعظم کو بتایاکہ سیکریٹ ڈاکیومنٹ ہے اس میں اصول و ضوابط کا خیال رکھیں لیکن پھر بھی عمران خان نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔
سینئر صحافی کے مطابق اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے بعد یہ ڈاکیومنٹ پھر نظر نہیں آیا، اعظم خان نے 8 سے 9 دن بعد عمران خان سے پوچھا کہ بحث شروع ہوگئی ہے آپ نے سائفر جلسے میں دکھادیا اب دفتر خارجہ کو یہ واپس چاہیے، اس پر عمران خان نے اعظم خان سے کہا کہ وہ ان سے گم ہوگیا ہے، اس پر اعظم خان نے تشویش ظاہر کی اور عمران خان سے کہا کہ یہ خفیہ ڈاکیومنٹ ہے اس کا گم ہونا ہمارے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
حامد میر کے مطابق سائفرپر کابینہ میٹنگ میں بھی بات ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی میں بھی یہ بات ہوئی، واضح ہے کہ سائفر پر عمران خان نے جو بیانیہ بنایا وہ دراصل سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیا، آفیشل سیکریٹ کے مندرجات کچھ اور تھے مگر اس کی بنیاد پر سیاست کی گئی جو قومی مفاد کے خلاف تھا۔حامد میر نے مزید کہا کہ تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ سائفر 8 مارچ کو وزیراعظم ہاو¿س بھیجا گیا اور پھر بنی گالا میں اسے عمران خان کے حوالے کیا جس کے بعد یہ فائل واپس دفتر خارجہ نہیں آئی، پرنسپل سیکرٹری آفس میں بھی اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔