اسلام آباد کے بااختیار طبقے کی کتاب میں بلوچستان کے لفظ کا کوئی نام ونشان تک نہیں ہے ہم اور آپ بلوچستان کوسمجھتے ہیں ان کی نظر میں بلوچستان کی اہمیت صرف سٹیوں کی ہے سردار اختر مینگل


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ اسلام آباد کے بااختیار طبقے کی کتاب میں بلوچستان کے لفظ کا کوئی نام ونشان تک نہیں ،جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے تووہ ڈکشنری میں بلوچستان کا لفظ ڈال کر موٹے موٹے آنسو بہاتے ہیں ،وڈھ کا معاملہ قبائلی نہیں جرائم پیشہ عناصر جو سیکورٹی فورسز، لیویز ،تاجروں کے قتل یا روڈوں پر لوٹ مار میں ملوث ہوں تو ڈکیٹ ،راہزن یا قاتل کی بجائے معاملے کوچھپانے کیلئے قبائلی رنگ دیاجاتاہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے ایک ویڈیو انٹرویو میں کیا۔
سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ اسلام آباد سے ابھی کچھ نہیں لایاہے جو بلوچستان کیلئے ہوں اسلام آباد کے بااختیار طبقے کی کتاب میں بلوچستان کے لفظ کا کوئی نام ونشان تک نہیں ہے ہم اور آپ بلوچستان کوسمجھتے ہیں ان کی نظر میں بلوچستان کی اہمیت صرف سٹیوں کی ہے کہ میرے پاس کتنے سیٹ اور دوسرے کے پاس کتنے سیٹس ہیں ،صرف وہ شمار میں ہے بلوچستان کالفظ صرف بوقت ضرورت جب ووٹ کا کام ہوں تو پھر بلوچستان کا لفظ یاد آجاتاہے اور موٹے موٹے آنسو بہاتے ہیں اس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے جب ان کاکام پورا ہوجاتاہے تو اس سے بھی دگنا ہمارے آنسو بہاتے ہیں وڈھ معاملے پر کچھ میڈیا کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ قبائلی ہے ان کو خود یہ معلوم نہیں ہے کہ وڈھ کا مسئلہ کیاہے ؟ اور کہاں سے شروع ہواہے ؟ اگر یہ مسئلہ سیاسی کی بجائے قبائلی ہوتا تاکہ ان عناصر کو اتنی چھوٹ کیوں دی جاتی ہے؟ ان لوگوں کو بلوچستان کے صوبائی پی ایس ڈی پی میں کروڑوں روپے کے اسکیمات کیوں دی جاتی ہے ؟
وہ سیاسی ہے کیونکہ ان علاقوں میں ان لوگوں کی اپنی سیاست برقرارکھنے کی کوششیں کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ گزشتہ پانچ سالوں میں جو الیکٹ ہوکر آئے ہیں ہزاروں ووٹ حاصل کئے ہیں ان کو پی ایس ڈی پی میں کچھ نہیں دیا جارہا یہ جو جرائم پیشہ عناصر ہے سیکورٹی فورسز ،مقامی لیویز ،عام تاجر کو قتل کیاہے اور جنہوں نے سڑکوں پر لوگوں کو لوٹا ہے اس کو سیاسی نہیں کہتے بلکہ ڈکیٹ ،راہزن ،قاتل ہے اور ان کو اسٹیبلشمنٹ کے القابات یا برقے میں چھپانے کی کوشش کرکے معاملے کوقبائلی رنگ دیاجاتاہے تو کبھی سیاسی رنگ دیاجاتاہے اگر وہ قبائلی تھے تو الیکشن میں کیوں حصہ لیتے ہیں ؟ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آئے کوئی مائی کا لعل اس کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرے ملک اور صوبے میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ ہم لاپتہ افراد پر سیاست کررہے ہیں یاسیاسی مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں توان کیلئے دروازے بند نہیں ہے ماما قدیر وہاں بیٹھا ہے کوئٹہ سے کراچی تک لانگ مارچ ،تادم بھوک ہڑتال کرے اگر وہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں کامیاب ہوئے تو میرا ووٹ ان کا ہے