وزارت تجارت برآمد کنندگان کو نوازنے کے لیے سرگرم


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) ٹیکسٹائل سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز نے اسپیشل انوسیٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (سفک) سے فوائد اٹھانے کیلیے بازیاں لگانی شروع کردی ہیں۔سفک کا اجلاس نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت چند لوگوں کا نوازنے کے سلسلے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، جہاں مٹھی بھر صنعتکارگزشتہ تین دہائیوں کے دوران کوئی حقیقی فائدہ پہنچائے بغیر قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔
وزارت تجارت کی جانب سے صنعتکاروں کو نوازنے کی تجاویز پر مشتمل یہ پروپوزل ان شرائط کے بھی خلاف ہے، جو عالمی اداروں سے قرض لیتے وقت طے کی گئی تھیں، جن کے مطابق ٹیکسوں سے تمام تر استشناء کو ختم کیا جانا ہے اور بجلی ٹیرف میں کسی کو بھی اسپیشل ٹریٹمنٹ نہیں دینی ہے، رواں سال فروری میں حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر برآمد کنندگان کو بجلی پر حاصل سبسڈی اور زیرو ٹیکس پالیسی کو ختم کرچکی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزارت نے تجویز دی ہے کہ کراس سبسڈی دینے سے مقامی صنعتوں کی برآمدات میں مسابقت ختم ہورہی ہے، اس لیے صنعتی ٹیرف کو سروس کی کاسٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، یہ پروپوزل صنعتی سیکٹر کو اسپیشل ٹریٹمنٹ دینے کے مترادف ہے، ان تجاویز کو منظور کرانے کیلیے سابق پیٹرن انچیف ایپٹما، وفاقی وزیر برائے کامرس اینڈ انڈسٹری لابنگ کرنے میں مصروف ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پاور ڈویژن کو 1,200 میگاواٹ کا ایک گرڈ بند کرکے صنعتکاروں کے حوالے کرنے کیلیے دبائو ڈالا جارہا تھا، تاکہ صنعتکاروں کو جنریشن ریٹ پر بجلی فراہم کی جاسکے، وزارت تجارت نے کہا تھا اس طرح برآمدات 20 فیصد تک بڑھانے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال کے دوران برآمدات 11فیصد اضافے کے ساتھ 28.3 ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی تھی جبکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کرنسی کی قدر میں کمی کے باجود 14.3فیصد کمی کے ساتھ 16.8ارب ڈالر رہی، جس کی بنیادی وجہ برآمد کنندگان کی جانب سے نئی ٹیکنالوجی اور جدت کو اپنانے کی بجائے حکومتی وسائل سے منافع کمانے کا رجحان ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق برآمد کنندگان کو صرف کرنسی کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے گزشہ چار سالوں کے دوران 1.5 کھرب روپے کا فائدہ ہوا ہے، جبکہ برآمدکنندگان نے ٹیکس کی مد میں محض 74 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں، دوسری طرف تنخواہ یافتہ طبقے نے اسی دوران 264 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے، وزارت کی جانب سے ایکسپورٹر کو گیس کی فراہمی میں ٹاپ ترجیح پر رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، وزارت نے 24 ارب روپے کی سیٹلمنٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر تجارت نے کابینہ کمیٹی برائے اکنامک ریوائیول کے اجلاس میں بھی یہ تجاویز پیش کی تھیں، ایکسپریس ٹریبیون نے اس حوالے سے نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی اور ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وزارت تجارت نے برآمدات کو 20 فیصد تک بڑھانے کیلیے اسپیشل انوسیٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ( سفک) قائم کی تھی، جس کا مقصد برآمدات بڑھانے کیلیے صنعتوں کو الیکٹریسیٹی ٹیرف، قرضوں اور سیلز ٹیکس سمیت دیگر فوائد کی فراہمی کی شرح کا تعین کرنا تھا۔