عرب لیگ اور او آئی سی کا مشترکہ اجلاس، ’مسجد اقصٰی ہمارے لئے ریڈ لائن ہے‘
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سعودی عرب کی میزبانی میں ایک غیر معمولی عرب اتحاد اجلاس جاری ہے، جس میں غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کے لیے اسلامی اور عرب دنیا کے ممالک کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ غزہ میں فوری طور پر اسرائیلی جارحیت بند ہونی چاہیے، اور مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، کوئی بھی ملک عالمی قوانین سے بالا تر نہیں، نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم آج آٹھویں او آئی سی ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں گے اور مختلف ممالک کے سربراہان سے اہم ملاقاتیں بھی کریں گے۔
سعودی مملکت کی وزارت خارجہ نے جمعہ کو دیر گئے سربراہی اجلاس کے بارے میں خبروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب ابتدائی طور پر دو سربراہی اجلاسوں کی میزبانی کرنے والا تھا، ایک اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور ایک ہفتہ کو عرب لیگ کا اجلاس، تاہم سعودی عرب کی طرف سے دونوں بڑی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے بعد مشترکہ سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اجلاس میں غزہ میں تشدد اور جنگ خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ شہادتوں کی تعداد دسیوں ہزار تک جاپہنچی ہے اور اسپتالوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے، ایسے میں اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
محمد بن سلمان نے غزہ پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’یہ ایک ایسی انسانی تباہی ہے جس نے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور دنیا کے دوہرے معیارات کو ثابت کرنے میں ناکامی کو ثابت کیا ہے‘۔
محمد بن سلمان نے غزہ میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرنے اور تمام اسیروں اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے امن کی صرف اور صرف اسرائیلی قبضے اور غیر قانونی بستیوں کے خاتمے اور فلسطینی عوام کے قائم کردہ حقوق کی بحالی اور 1967 میں مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانے والی ریاست کے قیام سے بحال ہوسکتا ہے۔‘
چھ نومبر کو جدہ میں 57 رکنی بلاک کے ہیڈ کوارٹر کی طرف سے ایک سرکاری اعلان میں کہا گیا تھا کہ سربراہی اجلاس میں ’فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ جارحیت‘ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
’اجتماعی پوزیشن کی ضرورت‘
سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، مشترکہ اجلاس ’غزہ کی پٹی میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات کے جواب میں منعقد کیا جا رہا ہے، کیونکہ رکن ممالک نے اپنی کوششوں کو متحد کرنے اور ایک متفقہ اجتماعی پوزیشن کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت محسوس کی ہے‘۔
او آئی سی میں پوری اسلامی دنیا کے رکن ممالک شامل ہیں جن میں فلسطینی علاقوں کے پڑوسی ممالک مصر اور اردن، لبنان، ترکی اور عراق شامل ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس
فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب اسلامی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ ہے کہ اسرائیل ہمیں ختم کردے گا، لیکن فلسطینی بہادری سے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
محمود عباس نے کہا کہ اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل پر افسردہ ہے، مجھے زیادہ افسوس عالمی برادری کی بے حسی پر ہے، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی فوج کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں لایا جائے اور امریکا سمیت عالمی برادری کو قیام امن کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔
فلسطینی صدر نے کہا کہ سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی جارحیت رکوانے میں ناکام ہوگئی، اسرائیل فوجی طاقت کے نشے میں دو ریاستی فارمولے کو بھلا چکا، غزہ کی پٹی ریاست فلسطین کا لازمی جزو ہے، غزہ میں قیمتی جانوں کے ساتھ 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ غزہ کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی افواج کے چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’اسرائیل کی جارحیت، قبضے، خلاف ورزی اور ہمارے مقدس مقامات کی بے حرمتی کو روکے‘۔
صدر عباس نے مزید کہا کہ ’کوئی عسکری اور سیکورٹی حل قابل قبول نہیں کیونکہ وہ سب ناکام ہو چکے ہیں‘، ہم غزہ یا مغربی کنارے سے اپنے لوگوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی
اجلاس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اس بات پر زور دیا کہ قتل، محاصرہ اور زبردستی منتقلی کے ذریعے ”اجتماعی سزا“ کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسے اپنے دفاع سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے، انہوں نے غزہ میں فوری طور پر پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
ایرانی صر ابراہیم رئیسی
ایران کی جانب سے بار بار اس حوالے سے خبردار کیے جانے کے بعد کہ اگر اسرائیل نے اپنے حملے بند نہ کیے تو جنگ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا، صدر ابراہیم رئیسی نے بھی ریاض میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی، یہ 11 سال میں کسی ایرانی صدر کا پہلا دورہ ہے۔
غزہ صورتحال پرآج کا اجلاس بڑا اہم ہے،ایران کے صر ابراہیم رئیسی نے خطاب میں کہا کہ غزہ میں ہونے والے مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، ہمیں غزہ کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ہم غزہ پراسرائیلی بمباری کی مذمت کرتے ہیں، غزہ میں معصوم فلسطینیوں کا خون بہایا جارہا ہے، یہ خطے کی تاریخ میں فیصلہ کن وقت ہے، ایران اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ غزہ کے لوگ 20 سال سے جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیل وحشیانہ حملوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی چاہتا ہے، بتایا جائے کہ شہید بچوں کا کیا قصور ہے؟
ابراہیم رئیسی نے ریاض کیلئے روانگی سے قبل کہا تھا کہ غزہ الفاظ کا میدان نہیں ہے۔ یہ (اجلاس) عمل کے لیے ہونا چاہیے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین نہ صرف مسلم دنیا بلکہ پوری دنیا کا اہم مسئلہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں صیہونی حکومت کے مظالم جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی واضح مثالیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی اپنے تبصروں اور پیغامات میں کہتے ہیں کہ وہ جنگ کا دائرہ وسیع نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ دعویٰ کسی بھی طرح سے ان کے اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اسرائیلی جنگی مشین کو ایندھن امریکی فراہم کرتے ہیں۔‘
ترک صدر رجب طیب اردوان
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے عرب اسلامی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ بچوں کی لاشیں اسپتالوں اور غزہ میں بکھری ہوئی ہیں، غزہ کی صورتحال پر دل خون کے آنسو روتا ہے، اسرائیلی قابض فوج نے فلسطین پر ظلم کی انتہا کردی ہے، ہم فلسطین میں ہونے والے مظالم کبھی نہیں بھولیں گے۔
ترک صدر نے کہا کہ پیرس میں چند افراد کی ہلاکت پر عالمی برادری متحد ہوگئی تھی، غزہ میں خونریزی پر دنیا بھر کی خاموشی شرمناک ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ترکیہ کی جانب سے 366 ٹن امداد غزہ بھیج رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام غزہ میں ہونے والے مظالم کے ذمہ دار ہیں، اس وقت ہمارا ہدف غزہ میں مستقل جنگ بندی ہے۔
ترک صدر نے مطالبہ کیا کہ دو ریاستی حل کیلئے عالمی امن کانفرنس بلائی جائے، اسرائیل کے جوہری ہتھیار خطے کیلئے خطرہ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مسجد اقصٰی ہمارے لئے ریڈ لائن ہے۔
امیر قطر تمیم بن حمدالثانی
امیر قطر تمیم بن حمدالثانی نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کی مذمت کرتے ہیں، میڈیکل اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، عالمی دنیا اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
امیر قطر نے کہا کہ غزہ میں ہونے والا قتل عام کسی صورت قبول نہیں، غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔