سالانہ امتحان میں ڈیڑھ ماہ رہ گیا، 3 بورڈز انٹر سال اول کا اعلان نہ کرسکے


کراچی(قدرت روزنامہ) تعلیمی بورڈز میں ایڈھاک ازم چیرمین بورڈز کی بار بار تبدیلی اور کمشنرز کو چیرمین مقرر کرنے کے باعث 2023میں ہوئے سالانہ امتحان کے 10ماہ بعد بھی سندھ کے تین تعلیمی بورڈز میں انٹرسال اول کے نتائج کا اعلان نہیں کیا جاسکا ہے سندھ کی تاریخ میں پہلی بار انٹر کے سال اول کے نتائج میں اتنی تاخیر ہوئی ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد سالانہ امتحانات کا انعقاد خطرے میں دکھائی دے رہا ہے حیدرآباد تعلیمی بورڈ، نوابشاہ تعلیمی بورڈ، میرپورخاص تعلیمی بورڈ تاحال انٹر سائنس، آرٹس اور کامرس کے نتائج کا اعلان نہیں کر پائے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ اور محکمہ بورڈز و جامعات کو نتائج میں تاخیر اور سندھ کے طلبہ کی پریشانی کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ نوابشاہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق حسن نے بتایا کہ نگراں وزیر اعلیٰ نے کمشنر نوابشاہ کو چئیرمین بورڈ لگادیا تھا ان کے دور میں امتحانی کاپیاں جانچنے اور نتائج کی تیاری کا کام رک گیا تھا جسے دوبارہ شروع کردیا گیا ہے امید ہے کہ 10روز کے اندر انٹر سال اول کے نتائج جاری کردیں گے۔
حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں بھی کمشنر حیدرآباد کو چئیرمین لگایا گیا جبکہ وہاں پہلے ہی سابق وزیر اسماعیل راہو نے خلاف ضابطہ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف ڈیپوٹیشن پر سندھ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے پروفیسر علی احمد بروہی کو لگایا تھا۔ اسی طرح گزشتہ12برس سے 18 گریڈ کے ڈپٹی کنٹرولر مسرور زئی نے کنٹرولر کا عہدہ سنبھالا ہوا ہے جب ھٹایا جاتا ہے موصوف عدالت اسٹے لے آتے ہیں اور محکمہ بورڈز کسی بھی کارروائی کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
میرپورخاص بورڈ میں گزشتہ تین ہفتے سے کوئی چیئرمین نہیں۔سابق وزیر اسماعیل راہو اپنے دور میں ذوالفقار شاہ کوخلاف ضابطہ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد سے میرپورخاص بورڈ کا چئیرمین لائے تھے جنھیں سندھ ہائی کورٹ نے ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر ھٹادیا، تاہم ان کی رخصتی کے بعد سے نہ صرف انٹر سال اول کے نتائج کی تیاری کا کام رکا ہوا بلکہ بورڈ کے روز مرہ کے امور بھی بری طرح متاثر ہیں۔ یاد رہے کہ انٹر میڈیٹ بورڈ کراچی میں بھی کمشنر کراچی کو چیرمین مقرر کیا گیا تھا
جس کا اثر انٹر سال اول کے نتائج پڑا۔ کم نتائج کے تناسب کے باعث این ای ڈی کی وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی سربراہی میں کمیٹی بنادی گئی اور اس کمیٹی نے عجیب و غریب فیصلہ دیا جس کے تحت صرف سائنس کے طلبہ کے اختیاری مظامین کے نمبرز بڑھائے گئے جب کہ لازمی مظامین میں نمبرز ہی نہیں بڑھائے گئے جس کی وجہ سے طلبہ کی اکثریت کو فائدہ نہیں پہنچ سکا اور بیڑی تعداد میں طلبہ لازمی مظامین (انگریزی، اردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات) میں فیل ہی رہے۔