اسلام آباد

خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے نے 1987 سے لے کر آج تک ’صرف ایک سال منافع کمایا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔‘
پاکستان کی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے کوششیں ہیں مگر اب گذشتہ دنوں ایک پیشرفت تب سامنے آئی جب ایئرلائن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے نجکاری کے لیے ’سکیم آف ارینجمنٹ‘ کی منظوری دی۔
اس حوالے سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ہولڈنگ کمپنی‘ کی تشکیل کی منظوری دی۔
پی آئی اے مسلسل کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی تمام تر کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔
نگراں حکومت کے دور میں اس ادارے کی نجکاری کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کی گئی تھیں اور اس کے اختتامی دنوں میں کابینہ کی جانب سے نجکاری کی منظوری بھی دی گئی۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری جون تک ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اب یہ کس مرحلے میں ہے؟
پی آئی اے کی نجکاری اس وقت ’سکیم آف ارینجمنٹ‘ کے مرحلے میں ہے جس کی منظوری اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے دی جا چکی ہے۔
اس سکیم کے تحت کسی بھی کمپنی میں اکثریتی حصص رکھنے والے افراد کمپنی کی نجکاری کی منظوری دیتے ہیں۔ پی آئی اے میں اکثریتی حصص حکومتِ پاکستان کے پاس ہیں۔
نجکاری امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ وفاقی حکومت پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے قیام کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے، جس کے حوالے سے پی آئی اے کے ذمے 600 سے 625 ارب کا قرضہ کیا جائے گا جو اس کے بعد وفاقی حکومت کی ذمہ داری بن جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ نجکاری کمیشن اپریل کے مہینے میں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے سرمایہ کاروں کو دلچپسی کا اظہار کرنے کا موقع دے گا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ کار پی آئی اے کی خریداری کے لیے اپنی بولی جمع کروا دیں گے اور بعد میں ان بولیوں کی جانچ پڑتال ہو گی۔
شہباز رانا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو امید ہے کہ جون کے مہینے کے ختم ہونے سے پہلے پی آئی اے کی نیلامی ہو جائے گی۔
ماضی میں پی آئی کی نجکاری کی کوششیں کیوں کامیاب نہیں ہو سکیں؟
ماضی میں بھی پاکستان کی قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے اعلانات ہوئے تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔
پاکستان کے سابق چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں پہلے تو پروفیشنل ورک کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ نجکاری کے تمام مراحل کو پیشہ وارانہ انداز میں طے کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ’بڑا چیلنجنگ‘ کام ہوتا ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ جون کے مہینے کے ختم ہونے سے پہلے پی آئی اے کی نیلامی ہو جائے گی
انھوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ حکومت میں چیئرمین نجکاری کمیشن بنے تو اس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے لیے تمام پروفیشنل مراحل کو طے کر لیا گیا تھا، لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اس عمل کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور میڈیا میں بھی اس کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔
ایوی ایشن کے امور میں گہری دلچسپی رکھنے والے صحافی طاہر عمران اس حوالے سے کہتے ہیں کہ نواز شریف کے دور میں اس کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ کوشش کی گئی تھی، تاہم ان کی پارٹی کے اندر سے بھی اس سلسلے میں روڑے اٹکائے گئے اور پی آئی اے کی نجکاری نہیں ہو سکی۔
طاہر عمران کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے میں عسکری مداخلت، عدالتی مداخلت اور سیاسی مداخلت تینوں کا عمل دخل رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کا عمومی ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے، اسی لیے سرمایہ کار پی آئی اے میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ایوی ایشن شعبے کے امور پر مہارت رکھنے والے افسر ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ بہت سارے گروہوں کے مفادات ہیں، جن میں سیاسی جماعتیں، پی آئی اے کی یونین اور حتیٰ کہ میڈیا بھی شامل ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے کا مالی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی پرائیوٹ پارٹی اتنے بڑے خسارے والے ادارے کو لینے کے لیے تیار نہیں تھی۔
افسر ملک کے مطابق پی آئی اے کے اثاثوں کی مجموعی مالیت 57 ارب روپے ہے جبکہ اس کے ذمے واجبات کئی سو ارب روپے ہیں جس کی وجہ سے اس کی نجکاری ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔
نجکاری کے بعد پی آئی اے کے ملازمین اور اثاثوں کا کیا بنے گا؟
پی آئی اے میں اس وقت 7200 مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس ایئرلائن کا حصہ ہیں۔
نجکاری کمیشن سے پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اظہارِ دلچسپی کے مرحلے کے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ ان ملازمین کو ایئرلائن کا نیا خریدار کم از کم کتنے عرصے تک ملازمت پر رکھنے کا پابند ہوگا۔
ترجمان نے اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کو علیحدہ کرنے کے بعد کچھ تو ہولڈنگ کمپنی کے پاس چلیں جائیں گے اور کچھ پی آئی اے کے ساتھ فروخت کر دیے جائیں گے۔
ان اثاثوں میں پی آئی اے کے دفاتر اور جائیدادیں شامل ہیں۔
شہباز رانا کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کو ایک سے تین سال تک ملازمت پر رکھنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ تاہم اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایئرلائن کے فنانشل ایڈوائزر کی جانب سے ایک سال تک ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ سابقہ نگراں حکومت کی جانب سے اس کی مدت تین سال طے کی گئی تھی۔
طاہر عمران نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پی آئی اے میں ضرورت سے زیادہ ملازمین کی تعداد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ پی آئی اے میں افرادی قوت اس کے مجموعی اخراجات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ بات میڈیا پر اس لیے پھیلائی گئی ہے تاکہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے کیا حاصل ہوگا؟
گذشتہ کئی سالوں سے پی آئی اے کی جانب سے پیش کی جانے والی سالانہ مالیاتی رپورٹس میں ایئر لائن کے خسارے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اُس برس ایئرلائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا۔
پی آئی اے کی جانب سے سال 2023 کے صرف پہلے چھ مہینوں کے مالیاتی نتائج کا اب تک اعلان کیا گیا ہے اور اس کے مطابق ایئر لائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60 ارب رہا تھا۔
ایوی ایشن کے شعبے پر گہری نگاہ رکھنے والے افسر ملک کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں خسارے کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مالی امور کے ماہر خرم شہزاد نے اس سلسلے میں کہا کہ حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا سلسلہ تھم جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کو سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ حاصل ہوگا جس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے بعد اس کی کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا؟
نجکاری کے بعد پی آئی اے کی متوقع کارکردگی پر بات کرتے ہوئے خرم شہزاد نے کہا کہ جب کوئی نجی کمپنی اس کا آپریشن سنبھالے گی تو یقینی طورپر ایئرلائن کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔
خرم شہزاد کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد اس میں سیاسی مداخلت بھی ختم ہوگی، جسے اکثر پی آئی اےکے زوال کی وجہ بتایا جاتا ہے۔
پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اُس برس ایئرلائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا
محمد زبیر نے اس سلسلے میں کہا کہ نجکاری کے پس پردہ دو مقاصد ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ادارہ ان لوگوں کے پاس جائے جو اس کے کاروبار کو سمجھتا ہو، کوئی ایئر لائن اگر پی آئی اے کو خریدتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے پی آئی اے کو چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کی صورت میں کم از کم حکومتِ پاکستان پر پڑنے والا مالی بوجھ ختم ہو جائے گا۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے طیاروں میں اضافہ ہوگا، اس کا انفراسٹرکچر اور آئی ٹی سسٹم بہتر ہوگا اور اس کے ملازمین کی تربیت کا بھی اچھا انتظام ہو گا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ 1987 سے لے کر آج تک پی آئی اے نے صرف مالی سال 07-2006 میں منافع کمایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔
پی آئی اے کا بحران: ’کچھ جہازوں کے انجن لیز پر ہیں، ان کو بھی اڑانے کی اجازت نہیں‘
’سب کچھ رازداری سے ہوتا ہے، کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہو رہا ہے؟

متعلقہ خبریں