پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحاد کتنا پائیدار؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان مسلم لیگ نواز اس وقت وفاق میں حکومت کو لیڈ کررہی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس کی اتحادی جماعت ہے اور وزیراعظم شہباز شریف دونوں جماعتوں کے مشترکہ ووٹ سے قائد ایوان منتخب ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی صدر کا عہدہ حاصل کرچکی ہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین سینیٹ بھی پاکستان پیپلز پارٹی ہی کا منتخب ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما ندیم افضل چن جو قمر زمان کائرہ اور مخدوم احمد محمود کے ساتھ گورنر پنجاب کے امیدوار ہیں، فروری میں وی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ایک زبردستی کی شادی ہے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت میں بھی پاکستان مسلم لیگ نواز ڈرائیونگ سیٹ پر تھی لیکن اس کی ناکامیوں کا بوجھ پیپلز پارٹی کو بھی اٹھانا پڑا، لیکن حالات کے جبر نے دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ چلنے پر مجبور کردیا۔
ابتدائی طور پر دونوں جماعتوں میں حکومت سازی پر اختلافات ہوئے کہ حکومت میں اختیارات یا عہدوں کی تقسیم کیسے ہوگی، تاہم بعد میں اس معاملے کو اتفاق رائے سے حل کرلیا گیا۔
دونوں جماعتوں کے درمیان پہلا اختلاف اس وقت سامنے آیا جب پاکستان پیپلزپارٹی حکومت اور وزارتیں لینے کے حق میں نہیں تھی اور وہ صرف آئینی عہدوں میں دلچسپی رکھتی تھی جس پر مسلم لیگ نواز کی جانب سے پیپلز پارٹی کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تاہم دونوں نے بالآخر ایک فارمولا طے کرلیا جس کے تحت مسلم لیگ نواز نے آصف علی زرداری کو صدر کے عہدے کے لیے ووٹ دیا اور ممکنہ طور پر پنجاب کے نئے گورنر کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہی ہو گا۔ اسی طرح سے قومی اسمبلی اسپیکر مسلم لیگ ن جبکہ ڈپٹی اسپیکر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
فارمولے کے تحت چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار پر دونوں جماعتوں کا اتفاق ہوگیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز 90 کی دہائی میں ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتیں رہ چکی ہیں اور دونوں میں نظریاتی اور کام کرنے کے اعتبار سے کافی فرق پائے جاتے ہیں۔ جبکہ دونوں جماعتیں ایک ایک صوبے میں اپنی مضبوط بنیاد رکھتی ہیں۔
اس سے قبل 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی مشترکہ حکومت ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے جب انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے اراکین نے پاکستان پیپلز پارٹی کی مشترکہ کابینہ میں شمولیت اختیار کی لیکن یہ زیادہ دیر چل نہ سکی اور جلد ہی مسلم لیگ ن کے وزرا حکومت سے الگ ہوگئے۔
حالیہ انتخابات سے قبل دونوں جماعتیں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تھیں۔ جس میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ تھے لیکن انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے ن لیگ پر خوب کھل کر تنقید کی جس کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے جواب بھی دیا گیا۔
اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک عہدیدار نے وی نیوز سے کرتے ہوئے کہاکہ بلاول بھٹو ہماری پارٹی کے چیئرمین ہیں اور بطور وزیر جب وہ وزیر اعظم کے تابع ہوتے تھے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا تھا اور اب اسی لیے ہم نے کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔
8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد سے اب تک پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں بہت کم اختلافات سامنے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی اختلاف ہوا بعد میں اس کو طے کرلیا گیا۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے ظفر محمود کو چیئرمین (ارسا) تعینات کیا تھا جس پر سندھ حکومت نے شدید احتجاج کیا اور وزیراعظم کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ صوبوں میں پانی کے تقسیم کار ادارے کا چیئرمین روٹیشن کی بنیادوں پر ارسا اراکین میں سے ہی لیا جاتا ہے جبکہ وزیراعظم کی جانب سے چیئرمین ارسا کا تقرر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سابق نگراں حکومت کے دور میں وزیراعظم کو ایک آرڈینینس کے ذریعے چیئرمین ارسا کی تعیناتی کا اختیار دیا گیا تھا تاہم سندھ حکومت کے شدید احتجاج کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے بولیاں طلب کرلی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ابتدائی طور پر پی آئی اے نجکاری کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ 2013 میں بھی جب مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی تو پیپلزپارٹی نے سخت مخالفت کی تھی لیکن اب پیپلز پارٹی نے اپنے تحفظات کے اظہار کے بعد اس معاملے پر زیادہ عوامی سطح پر بات چیت یا احتجاج نہیں کیا۔
حکومت سندھ نگراں دور میں تعینات ہونے والے آئی جی سندھ راجا رفعت مختار کو ہٹا کر غلام نبی میمن کو آئی جی سندھ لگانا چاہتی تھی لیکن وفاق کی جانب سے اس معاملے پر تاخیر کے باعث سندھ حکومت نے تشویش ظاہر کی تو کچھ روز قبل ہی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے غلام نبی میمن کو آئی جی سندھ تعینات کردیا۔