سینیٹ میں ججز ’مخالف‘ بیانات کی گونج ، حاضر اور سابق ججز پر کڑی تنقید
نسلہ ٹاور گرا کر کون سا انصاف کیا، فیصل سبزوار، سلیکٹڈ لوگ توہین عدالت کا نشانہ بنتے ہیں، طلال چوہدری
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سینیٹ میں آج کی کارروائی کے دوران ججز ’مخالف‘ بیانات کی گونج رہی۔ متحدہ قومی موؤمنٹ پاکستان اور ن لیگ کے سینیٹرز نے محتاط انداز میں حاضر اور سابق ججز کے فیصلوں اور ریمارکس پر کڑی تنقید کی ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے فیصل سبزواری نے عدالتی فیصلوں پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’نسلہ ٹاور میں امیر کا گھر نہیں تھا اس لئے گرا دیا گیا، نسلہ ٹاور گرانا کون سا انصاف ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ توہین کے قواعد و ضوابط طے ہونے چاہئیں، ہمیں کبھی آدھے گھنٹے میں 50 ،50 کیسز میں ضمانت نہیں ملی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ صرف ججز نہیں سب کی عزتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ہم سب کی عزتیں مشترک ہیں۔ کسی کو کسی کی عزت اچھالنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر نے مزید کہا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ ہے، ہم نے احتجاج کیا، جس میں نہ ٹائر جلے اور نہ گملہ ٹوٹا لیکن پھر بھی ہم پر مقدمہ بن گیا۔
سلیکٹڈ لوگوں کو توہین عدالت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، طلال چوہدری
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے ہوئے ن لیگ کے سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ پوری دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا ہے۔ عدالت فیصلوں سے وقار بلند کرے، سسیلین مافیا، گاڈ فادر کے نام کون برداشت کرے گا، سلیکٹڈ لوگوں کو توہین عدالت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنماؤں کےخلاف توہین عدالت کے کیسز بنتے ہیں، مجھے بھی توہین عدالت کے قانون کا نشانہ بنایا گیا، میں عدالتی کارروائی دیکھنے کیلئےعدالت جاتا تھا، عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا سے بات بھی ہوتی تھی، لیکن کبھی کسی جج کا نام نہیں لیا۔
انھوں نے کہا کہ پی سی او ججز کے کہنے پر مجھے توہین عدالت کا نوٹس ملا تھا، کوئی میرا وکیل بھی بننے کیلئے تیار نہیں تھا، ہمارے یہاں آج بھی چن چن کر نوٹس کیے جاتے ہیں، میرا نہیں خیال کہ نوٹس سےعدالت کا وقار بلند ہوگا، میرا فیصل واوڈا سے شدید اختلاف ہے، میں کسی کو بھی نشانہ بنانے کے حق میں نہیں۔
مرضی کے فیصلے نہ آنے پر ججز نشانے پر آتے ہیں، کامران مرتضیٰ
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ کچھ ججز پہلے نشانے پر تھے کچھ آج ہیں، مرضی کے فیصلے نہ آنے پر ججز نشانے پر آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات پر بحث کرا دی گئی، بحث سے تاثر مل رہا ہے کچھ ججز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، آئین کو مد نظر رکھ کر بات کرنی چاہیے۔
ہم اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں، پارلیمنٹ کی توقیر کے ساتھ پرسنل ایجنڈا نہ بنایا جائے، سینیٹر محسن عزیز
محسن عزیز نے سوال اٹھایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان پر جعلی مقدمات بنائے گئے کیا اس معاملے پر ایوان میں بات ہوئی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں کیوں خاموشی رکھی گئی ؟
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ سے متعلق کئی لوگوں نے بات کی، ”پراکسی“ کا لفظ کسی ایک شخص کےلئے کیوں لیا جارہا ہے؟ فیصل واڈا نا اہل ہوئے، کیا اس کو پرسنل اسکورسیٹل کے لئے استعمال تو نہیں کیا جارہا، توہین عدالت کا نوٹس مہان چیف جسٹس نے دیا ان کا نام نہیں لیا جارہا۔
انھوں نے کہا کہ اگر جج لاپتہ افراد کی بات کر رہے ہیں تو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے، ایسی بحث کرکے ہم اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں، توہین عدالت کی بات کررہے ہیں تو ہمیں قانون بنانا چاہیے کس پرتوہین عدالت لگے گی۔
علامہ راجہ ناصر
ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹرعلامہ راجہ ناصر نے کہا کہ مہذب ممالک میں لوگوں کا غائب ہونا ظلم ہے، لاپتہ تو دشمن کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں 12 ہزار سے زائد سیاسی قیدی ہیں، یاسمین راشد عالیہ حمزہ پر مقدمات نا انصافی ہے، عالیہ حمزہ کے شوہر کینسر کے مریض ہیں، ہمیں مظلوم کا نمائندہ بننا چاہیے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی شیری رحمان کے ساتھ تلخ کلامی، اپوزیشن ارکان کا شور شرابہ
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ممبران گھنٹہ گھنٹہ بات کررہے ہیں، ہمیں بولنے سے روکا جا رہا ہے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی شیری رحمان اور پیپلزپارٹی کے سینیٹرز سے تلخ کلامی ہوئی۔