ہویا پرندے کا ایک پنکھ 28,417 امریکی ڈالرز میں نیلام، اتنا مہنگا ہونے کی وجہ کیا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)نیوزی لینڈ میں معدوم نسل کے پرندے ہویا کا ایک ’پنکھ‘46,521.50 نیوزی لینڈ ڈالر جب کہ 28,417 امریکی ڈالر( پاکستانی تقریباً 7 کروڑ 89 لاکھ 9 ہزار سے زیادہ روپوں) میں فروخت ہوا، جس کے بعد اس نے دُنیا کے مہنگے ترین ’پَر‘ کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

نیوزی لینڈ میں ویبز آکشن ہاؤس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر اس پنکھ (پَر) کی قیمت 3000 ڈالر تک متوقع تھی لیکن یہ 450 فیصد زیادہ قیمت میں فروخت ہوا جس کے بعد اسے دُنیا میں کسی پرندے کا سب سے مہنگا ترین پنکھ قرار دیا گیا جو سب سے زیادہ قیمت پر نیلام ہوا۔
ہویا پرندہ ایک ایسا پرندہ ہے جسے ماؤری قبائل کے لوگ اپنے لیے مقدس سمجھتے تھے۔ ان پرندوں کے پروں سے اکثر ماؤری قبائل کے سرداروں اور ان کے اہل خانہ کے لیے سر کے لیے تاج تیار کیا جاتا تھا اس کے علاوہ اس کے پروں کو قبائل کے سردار ایک دوسروں کو بطور تحفہ بھی پیش کرتے تھے۔

نیوزی لینڈ کے عجائب گھر کے مطابق اس پرندے کو آخری بار 1907 میں دیکھا گیا تھا، ہویا پرندہ نیوزی لینڈ میں واٹل برڈ خاندان کا ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جو اپنی خوبصورت آواز، چونچ اور پروں کی وجہ سے جانا جاتا تھا، اس کی دم کے پنکھ لمبے اور آخری حصہ سفید رنگ پر مشتمل ہوتا تھا۔
نیلام گھر میں تزین و آرائش کے آرٹس کی سربراہ لیہ مورس کا کہنا ہے کہ ’ہویا پرندہ‘ کا فروخت ہونے والا یہ پنکھ حیرت انگیز طور پر اصل حالت میں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ اس ایک پنکھ کی چمک اب بھی تر و تازہ اور باقی پرندوں کے پروں سے مختلف ہے۔

اس میں ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ماؤری قبائل میں مقدس مانا جانے والا یہ پر ٹونگا ٹوٹورو کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ قبائلی نظام کے مطابق لائسنس رکھنے والوں کو ہی اسے خریدنے کی اجازت تھی اور یہ وزارت ثقافت و ورثہ کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔
مس مورس کے مطابق نیوزی لینڈ کے باشندوں کی جانب سے زبردست دلچسپی اور جوش و خروش کی وجہ سے اس ’پَر‘ کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نیوزی لینڈ میں زمین، ماحول اور اپنے نباتات اور حیوانات کی دیکھ بھال کے بارے میں بہت پرواہ کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں شاید اس لیے کہ یہ پرندہ اب معدوم ہو چکا ہے، ماضی میں ہویا کے ’پَر‘ ماؤری لوگوں کے لیے ایک خاص حیثیت اور منفرد نشان کے طور پر جانے جاتے تھے۔