نومبر میں امریکی انتخابات پاک۔امریکا تعلقات پر کس طرح اثرانداز ہوں گے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے ناطے امریکا میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی تبدیلی ساری دنیا کو متاثر کرتی ہے اور اسی لیے دنیا امریکی انتخابات میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتی ہے۔
پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی رہا ہے اور افغانستان میں امریکا نے جو 2 جنگیں لڑی ہیں جن کا پاکستان حصہ رہا ہے۔ اس سال نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں، یہ انتخابات پاکستانی سیاست اور پاکستانی خارجہ پالیسی کو کس طرح سے متاثر کریں گے، یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے کچھ ماہرین سے بات کی۔
’افغانستان سے نکلنے کے لیے ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کی‘
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاست پر امریکی انتخابات کے اثرات سے متعلق بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صدر جو بائیڈن کے امکانات کم نظر ہی آتے ہیں اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنتے ہیں تو ان کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی نہیں جاسکتی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کو مدعو کیا اور ان سے ملاقات بھی کی، لیکن اس وقت امریکا کی مجبوری تھی کہ اسے افغانستان سے نکلنا تھا اور اس لیے اسے پاکستان کو اہمیت دینا پڑتی تھی۔ لیکن فی الوقت پاکستان امریکا کے لیے کوئی خاص اہم ملک نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سلمان بشیر نے کہا کہ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو صدر ٹرمپ کے انتخابات سے کافی امیدیں ہیں، لیکن اس طرح باہر والوں سے امیدیں نہیں رکھنی چاہییں اور میرا نہیں خیال کہ امریکی انتخابات سے پاکستان پر بلاواسطہ یا بالواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔
’ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدر منتخب ہوگئے تو پاکستانی سیاست میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوگی‘
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتخابات اور پاکستانی سیاست میں انہیں کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور ہمیں امید کرنی چاہیے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اس کے مؤقف کو سمجھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں کم سے کم دلچسپی ہوگی اور میرا نہیں خیال کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے بارے میں ایک حد سے آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کریں گے۔
عبدالباسط نے کہا کہ امریکا کی نظر میں پاکستان کی اہمیت اب بھی ہے اور اس کی وجہ پاکستان کی تزویراتی حغرافیائی لوکیشن ہے، امریکا پاکستان اور چین کی تزویراتی شراکت داری سے بھی ناخوش ہے اور اس میں دراڑ ڈالنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اہمیت ہے اور جب تک امریکا سپر پاور ہے تو پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات تو رہیں گے۔
عبدالباسط نے مزید کہا کہ امریکا بھی پالیسی میں تبدیلی لاتا رہتا ہے اور پاک-امریکا تعلقات جب کم سے کم سطح پر بھی تھے تب بھی امریکا نے پاکستان کے ساتھ اپنی ملٹری لائنز آف کمیونیکشن کو کبھی ختم نہیں کیا اور فوجی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان روابط رہے ہیں۔
’ری پبلیکن ادوار میں امریکا نے افغانستان میں پہلی اور دوسری جنگ لڑی‘
قومی سلامتی امور کے ماہر سید محمد علی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی اعتبار سے امریکا کی 2 سیاسی جماعتیں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ کا داخلی، خارجہ اور معاشی سیاست کا انداز بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح سے دونوں جماعتوں کا مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا انداز بھی مختلف ہے۔ اگر امریکی تاریخ کو دیکھا جائے تو ری پبلیکن پارٹی نے امریکی مفادات کی عالمی سطح پر ترویج کے لیے امریکی محکمہ دفاع پر زیادہ انحصار کیا ہے، وہ رونلڈ ریگن انتظامیہ ہو یا جارج بش انتطامیہ افغانستان میں 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہو یا سن 2001 میں دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ، دونوں مرتبہ امریکا میں ری پبلیکن پارٹی ہی کی حکومت تھی۔
انہوں نے کہا کہ ری پبلیکن دور ہی میں پاکستان اور امریکا کے دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا، پاکستان کو دفاعی ٹیکنالوجی منتقل کی گئی اور پاکستان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا۔ ڈیموکریٹ پارٹی کا سیاسی نظریہ دفاعی پالیسیوں پر انحصار کے بجائے امریکی دفترِ خارجہ اور معاشی پالیسیوں پر ہوتا ہے اور ڈیموکریٹ انسانی حقوق اور جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتے ہیں۔ موجودہ ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت کے دوران امریکا کا پاکستان کے ساتھ دفاعی کے مقابلے میں معاشی تعاون کو اہمیت حاصل رہی اور امریکا پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتا رہا۔
اس کے ساتھ اب ایک نیا پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کا امریکا کی داخلی سیاست میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، لیکن امریکا پاکستان کو جنوبی ایشیا کا اہم ملک گردانتا ہے۔ مثال کے طور پر سائفر کے معاملے پر اگر دیکھا جائے تو ایک جماعت کی بھرپور کوشش اور لابنگ کے باوجود امریکا نے اسے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا اور پاکستان میں جمہوری عمل اور انتخابات میں براہِ راست مداخلت سے احتراز کیا کیونکہ امریکا جانتا تھا کہ براہِ راست مداخلت کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔