دلچسپ و عجیب

طلاق یافتہ والدین کے بچوں کو کن قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)شادی ایک ایسا خوبصورت بندھن ہے جس کا آغاز ہمیشہ خوشیوں، اُمیدوں اور تمناؤں ہی سے ہوتا ہے لیکن اب اکثر ایسا ہونے لگا ہے کہ ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے والے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے اور جلد ہی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد طلاق اب ایک توجہ طلب سماجی مسئلہ بن چکی ہے۔
اسلام آباد میں طلاق کی شرح
مختلف اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں لگا تار اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ 16 ماہ کے دوران 1048 جوڑوں میں طلاقیں ہوئیں جن میں سے 414 خواتین نے خود خلع حاصل کیا۔
دوسری جانب تازہ گیلپ سروے کے مطابق سال 2020 اور سال 2021 میں پاکستانی فیملی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات میں سے 70 فیصد خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے خلع کے کیسز تھے۔
طلاق سے متعلق قانونی مشکلات
مسلم عائلی قوانین آرڈنینس 1961ء کی دفعہ 5 کے تحت شادی اور دفعہ 7 کے تحت طلاق کو یونین کونسل میں رجسٹر کروانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ شادی تو لوگ رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں مگر طلاق کے بعد سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کو کوئی ضروری نہیں سمجھتا اور طلاق سرٹیفکیٹ کے لیے اس وقت بھاگ دوڑ کرتے ہیں جب بچوں کے ب فارم، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے، دوسرٰی شادی کرنے، شناختی کارڈ پر بیوی کے نام کی تبدیلی اور وراثت کی تقسیم جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان تمام مسائل کی بڑی وجہ لوگوں میں قانون کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔
طلاق دینے کا قانونی طریقہ
رابعہ ساغر ایڈووکیٹ نے وی نیوز کو بتایا کہ طلاق دینا مرد کا شرعی حق ہے لیکن یہ کام دین اسلام میں ناپسندیدہ ترین کاموں میں سے ایک ہے لہذا جذبات میں آ کر جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
رابعہ ساغر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ہیں۔ انہوں نےہنگامی صورتحال میں مفت ابتدائی قانونی مشاورت کے لیے جوابی خدمت ہیلپ لائن تشکیل دی ہے جہاں ان کی ٹیم رہنمائی کے لیے ہر وقت دستیاب رہتی ہے۔
طلاق دینے کا قانونی طریقہ بتاتے ہوئے رابعہ کہتی ہیں کہ اصولاً طلاق دینے کے بعد شوہر متعلقہ یونین کونسل کو بذریعہ نوٹس مطلع کرے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے جس کے بعد یونین کونسل ایک مصالحتی کونسل تشکیل دے گی۔
اس کونسل کا مقصد ہو تا ہے کہ میاں بیوی کے لیے طلاق آخری آپشن ہونا چاہیے اور یہی شریعت کا بھی تقاضہ ہے۔ اس سے قبل دونوں ازدواجی تنازعات کو حل کرنے اور آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ لہٰذا کونسل کے ذریعے باہمی اختلافات کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
یہ مصالحتی کونسل شوہر اور بیوی کے نمائندگان پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ نمائندے شوہر اور بیوی کے قریبی عزیز، والدین اور بھائی ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین یونین کونسل یا سیکریٹری یونین کونسل بھی اسی مصالحتی کونسل کا حصہ ہوگا۔ یہ کونسل میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرے گی۔ اگر صلح ہو جاتی ہے تو دی گئی طلاق غیر مؤثر ہو جائے گی اور میاں بیوی بغیر نکاح کیے اکٹھے رہ سکتے ہیں اور اگر راضی نامہ نہ ہوا تو یونین کونسل کو نوٹس ملنے کے 3 ماہ بعد طلاق مؤثر ہو جائے گی اور متعلقہ یونین کونسل طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی۔
طلاق سرٹیفکیٹ کی اہمیت
یہ سرٹیفکیٹ اس بات کا ثبوت ہے کی شادی شدہ شخص طلاق یافتہ ہے اور اگر خاتون طلاق کے بعد دوبارہ شادی کر رہی ہیں تواس وقت طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ بہت ضروری ہے اور اسی طرح اگر مرد دوسری شادی کر رہا ہے تو نکاح نامے کے جو مخصوص کالمز ہیں ان میں یہ لکھنا ضروری ہے کہ مرد یا خاتون پہلے سے شادی شدہ ہیں یا ان کے پہلے سے بچے بھی موجود ہیں۔
رابعہ ایڈووکیٹ نے طلاق سرٹیفکیٹ نہ لینے کے نقصانات کے بارے میں بتاتے ہوئے مزید کہا کہ اگر خاتون نے کورٹ سے طلاق لے لی ہے اور بغیر طلاق مؤثر سرٹفیکیٹ کے خاتون دوسری شادی کر رہی ہے تو دوسرا نکاح مؤثر نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دی ہے اور یونین کونسل کو نوٹس نہیں بھیجا تو مرد کو مسلم فیملی لاز 1961ء کےقوانین سیکشن 7 کے تحت جرمانہ یا قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں عمیر شفیق مغل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ مرد کو طلاق کو قانونی شکل میں مجاز حکام کے سامنے پیش کرنے کے بعد باقاعدہ سر ٹیفکیٹ حاصل کرناچاہیے کیونکہ یہ بیوی اور بچوں کے مالی حقوق کو ثابت کرنے کے لیےبہت ضروری ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر دستاویزی طلاق درست نہیں ہوتی۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا عمل صرف حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو جب بھی معتبر شرائط کے ساتھ شوہر طلاق دے گا تو طلاق ہو جائے گی۔
تفصیل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن کا یہ عمل طلاق یا خلع کی صورت میں خاص طور پر خواتین کے حقوق کی حفاظت اور اولاد کے صحیح نسب کے حق، اور علیحدگی یا موت کی صورت میں نفقہ، سامان جہیز، اور میراث کے حق کے تحفظ کا ضامن ہے جبکہ نکاح و طلاق رجسٹرڈ نہ کرانے کی صورت میں مذکورہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل طلاق بائن ( جدا کرنے والی طلاق) کا رجحان زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی طلاق ہے جس کی وجہ سے عورت مرد کے نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب زن و مرد کی نااتفاقی و ناچاقی بالکل اصلاح کے قابل نہ رہے تو بہت سوچ سمجھ کر ٹھنڈے دماغ سے ہی طلاق کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
خواتین کو طلاق کا حق دینے سے طلاقیں بڑھیں گی
حال ہی میں مرکز برائے انسانی حقوق (سی ایف ایچ آر) نے مساوی اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اشتراک سے خواتین کے شادی کے حقوق کی حیثیت کا جائزہ لیا تھا۔
اس مطالعے میں 1100 نکاح ناموں کا جائزہ لیا گیا اور پنجاب کے (2020- 2021کے دوران) 2 پائلٹ اضلاع کی 14 یونین کونسلز بشمول لاہور اور پاکپتن میں 105 نکاح رجسٹراروں کا انٹرویو کیا گیا اور اس کے علاوہ متعلقہ قانون سازی اور عمل درآمد کے فریم ورک کا تجزیہ کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق خواتین کو سونپے جانے سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
دیہی علاقوں کی صورتحال
قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد میں طلا ق کے بعد طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا رجحان زیادہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں ایک تو لوگوں کو شعور نہیں دوسرا لوکل گورنمنٹ اور باصلاحیت عملہ نہ ہونے کی وجہ سے سرٹیفکیٹ لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ایسی ہی کہانی ایبٹ آباد کی راحیلہ (فرضی نام) کی ہے جنہیں شادی کے محض ایک سال بعد ہی طلاق ہو گئی تھی۔ ان کے گھر والے جلد سے جلد ان کی دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انہیں بتایا گیا کہ طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ ضروری ہے۔
گزشتہ 2 سال سے وہ ایبٹ آباد سے سر ٹیفکیٹ لینے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔
24 بعد طلاق دے دی مگر مہر نہ دیا
صائمہ ایک ایسی خاتون ہیں جن کو تقریباً 24 سال بعد گھریلو لڑائی جھگڑے کے دوران غصے میں طلاق دے دی گئی۔ ان کے 4 بچے شہر کے مہنگے ترین اسکولوں میں پڑھتےہیں جن کو اسکول چھوڑنے اور لانے کی ذمہ داری سمیت گھر کے دیگر تمام امور بھی صائمہ ہی سنبھالتی تھیں۔ اب وہی صائمہ اسی گھر کے اوپر والے پورشن میں گزشتہ 2 سال سے تقریباً قید کی سی زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کے خاوند نیچے والے پورشن میں والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور وہی ان کا نان و نفقہ اٹھاتے ہیں۔
صائمہ کہتی ہیں کہ اگر ان کا حق مہر ادا کر دیا جائے تو وہ الگ گھر لے کر رہ سکتی ہیں لیکن ان کے سسرال والے اب شاید اتنی بڑی رقم دے نہیں سکتے یا دینا نہیں چاہتے۔
صائمہ گھر سے باہر بھی نہیں جا سکتیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ گھر سے باہر نکلیں گی تو واپسی پر انہیں گھر میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں اگر ان کے پاس ضروری دستاویزات جیسے طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ ہوں تو وہ اپنے اور بچوں کے حقوق کے حصول کی کوشش کر سکتی ہیں۔
عورت طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ کیسے حاصل کرے؟
طلاق کی رجسٹریشن مرد یونین کونسل میں کرواتا ہے مگر اکثر ذاتی عناد یا بدلہ لینے یا پھر غصہ کی وجہ سے مرد طلاق کے بعد سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کو ترجیح نہیں دیتے تاکہ طلاق حکومت کے ریکارڈ میں نہ آئے۔ اس وجہ سے عورتوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ یونین کونسل سے طلا ق مؤثر سرٹیفکیٹ حاصل کر سکیں۔
سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں رابعہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اگر عورت نے عدالت کے ذریعے خلع لی ہے تو عدالتی ڈگری متعلقہ یونین کونسل کو جائے گی اور عدالتی ڈگری کے 3 ماہ بعد متعلقہ یونین کونسل طلاق مؤثر سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی۔

متعلقہ خبریں