وہ 5 ہنر جنہیں سیکھ کر گھر بیٹھے پیسے کمائے جا سکتے ہیں


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے ہر دوسرا شخص پریشان ہے، جبکہ ہر سال بے روزگاری میں اضافے کے باعث غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے رواں سال کے دوران پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
بے روزگاری کے باعث ہر فرد یہی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا ہنر ہو جس سے وہ اپنا کام کرسکے اور اس کے لیے اسے کوئی زیادہ انویسٹمنٹ بھی نہ کرنی پڑے، کیونکہ کسی بھی کمرشل مارکیٹ میں میں جگہ لے کر کام شروع کرنا آج کے دور میں ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس صورتحال میں ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایسا ہنر سیکھ لیا جائے جس کے ذریعے گھر بیٹھے پیسے کمانا ممکن ہو لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان بدربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
وی نیوز نے 5 ایسے شعبوں کے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے جن کے ذریعے واقعی گھر بیٹھے باآسانی پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ کورونا وبا کے بعد سے آن لائن سروسز کا رجحان کافی زیادہ بڑھ چکا ہے، اب زیادہ تر لوگ مارکیٹ جانے کے بجائے گھر بیٹھے خریداری اور مختلف خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آن لائن کاروبار کو کافی فروغ ملا ہے۔
ہوم شیف
خواتین ہوں یا پھر مرد حضرات جو اچھا کھانا بنانے کا ہنر رکھتے ہیں، یا پھر شیف کورس بھی کیا جاسکتا ہے۔ ان کے لیے یہ ایک بہت اچھا کام ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ریسٹورنٹ کھولنے اور مارکیٹ میں باقی ریسٹورنٹس کا مقابلے کرنے کے لیے آپ کو لاکھوں، کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں، لیکن یہی کام اگر گھر بیٹھ کر شروع کیا جائے تو بہت زیادہ منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔
صائمہ رضوان کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ایک ہوم شیف ہیں۔ جنہیں یہ کاروبار کرتے ہوئے تقریباً 5 برس ہوچکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس کاروبار کا آغاز اپنے بچوں کے اصرار پر کیا تھا مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کاروبار سے وہ ماہانہ لاکھوں روپے کما سکیں گی۔ اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ان کا آن لائن ہوم کچن پھیلا ہوا ہے۔

’ اس سے قبل میں ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، اور میری وہ جاب بہت اچھی تھی، لیکن زندگی بھر نوکری کرکے بھی اتنے پیسے نہیں کما سکتی تھی جتنے میں ان 5 برسوں میں کما چکی ہوں‘۔
درزی کا کام
کہا جاتا ہے کہ فوڈ اور کپڑے کا کاروبار ہر حالات میں چلتے ہیں، یہ وہ کاروبار ہیں، جو شاید ہی نقصان کا باعث بنیں۔ اور وہ بھی اس دور میں جب لوگ آن لائن خریداری کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ درزی ہیں، یا پھر آپ کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے تو آپ یہ ہنر سیکھ کر آن لائن اپنی خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ خود کپڑا خرید کر خوبصورت ڈریس ڈیزائن بنا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنا کپڑوں کا کاروبار بھی کرسکتے ہیں۔ جس سے آپ ماہانہ لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔

آن لائن اسٹیچنگ فیکٹری کا کاروبار شروع کرنے والے محمد احمد بلال کا کہنا تھا کہ انہوں نے گریجویشن کے بعد نوکری کی تلاش میں 2 برس گزار دیے لیکن پاکستان میں نوکریوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ان 2 برسوں کے دوران میں نے بہت سے دوستوں کو نوکریوں سے نکلتے ہوئے بھی دیکھا جس کے بعد میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ نوکری نہیں کروں گا۔
’محلے کے ایک درزی کے ساتھ مل کر ہم 3 دوستوں نے ایک چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا اور اب ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ گاہک ہیں۔ ہم چاہ کر بھی ہر کسی کو اپنی سروسز نہیں دے پاتے جبکہ ماہانہ ہماری بچت لاکھوں میں ہے‘۔
آن لائن ٹیوشن
آن لائن ٹیوشن کا رجحان گزشتہ چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اکیڈمیز اور کسی کے گھر جا کر پڑھنے کے حوالے سے معاشرتی رویے میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ خاص طور پر چھوٹے بچوں کو لے کر، کیونکہ شاید اس کی ایک بڑی وجہ بچوں سے جنسی ہراسانی کے واقعات بھی ہیں۔ جس کی وجہ سے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ان کے گھر جا کر یا پھر آن لائن بچوں کو پڑھائے۔
اس کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی یہ خدمات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ صرف دنیاوی تعلیم نہیں بلکہ آن لائن قرآن پاک پڑھانے کے بھی بہت سے مواقع ہیں۔ خاص طور پر یورپ میں قرآن ٹیوٹرز کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔

تابندہ مشتاق کا تعلق اسلام آباد سے ہے، اور وہ مغربی ممالک میں قرآن پاک پڑھانے کی آن لائن خدمات فراہم کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ 10 سال سے آن لائن قرآن پڑھا رہی ہیں۔ جس سے انہیں ڈالرز اور یوروز میں آمدن ہوتی ہے، جو پاکستانی لاکھوں روپے بنتے ہیں۔
’میں صرف 4 ممالک کے بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ 40 سے 50 منٹ کا وقت دینا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر بیٹھ کر بہت آسان ہوتا ہے۔ چونکہ میرے 2 بچے ہیں، جن کے ساتھ میں باہر جا کر نوکری نہیں کرسکتی اور پاکستان میں تنخواہیں بھی اچھی نہیں ہوتی‘۔
سوشل میڈیا مینجمنٹ
ڈیجیٹل دور میں دنیا کب سے قدم رکھ چکی ہے جس کے بعد سے ہر چھوٹا بڑا کاروبار اپنی سوشل میڈیا پر موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ صرف سوشل میڈیا پر موجود ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ سوشل میڈیا صارفین اس چیز یا کام کو کتنا پسند کررہے ہیں، یہی اس برانڈ کی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اور اس مقام پر پہنچنے کے لیے کاروباری افراد لاکھوں روپے انویسٹ کرتے ہیں جس سے ان کے کاروبار کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا مینجمنٹ کے بہت سے کورسز کروائے جاتے ہیں، بلکہ یوٹیوب پر بہت اچھے کورسز موجود بھی ہیں۔ اس حوالے سے فری لانسر طاہر عمر کرتے ہیں کہ یوٹیوب پر اتنا اچھا مواد ہے کہ آپ کو یہ سیکھنے کے لیے پیسے لگانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

’میں سوشل میڈیا مینجمنٹ سمیت دیگر آئی ٹی سروسز فراہم کرتا ہوں۔ میرے ملکی اور غیر ملکی دونوں گاہک ہیں۔ جس طرح چائنا سستی اشیا بیچنے کے لیے دنیا میں مشہور ہے، اسی طرح پاکستان سستی آئی ٹی سروسز فراہم کرنے کے لیے مشہور ہے۔ یہ سروسز باہر کے لوگوں کے لیے سستی ہیں، مگر پاکستانی روپے میں اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے، کیونکہ پاکستان میں بہت ہی کم کمپنیاں آپ کو اتنی تنخواہ دیتی ہیں۔ اول تو مواقع کم ہونے کی وجہ سے مقابلہ ہی بہت سخت ہوتا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ کوئی بھی یہ کورس کرکے اس شعبے میں مزید تجربہ کرے اور پھر وہ آن لائن یوٹیوب پر اس حوالے سے کانٹینٹ بنا کر یوٹیوب سے بھی پیسے کما سکتا ہے، اور بہت سے افراد اس طرح لاکھوں روپے باآسانی کما رہے ہیں۔
ای کامرس ڈراپ شپنگ
ای کامرس ڈراپ شپنگ میں انوینٹری رکھے بغیر مصنوعات فروخت کرنا شامل ہے۔ یہ کورس بھی آپ کو ماہانہ لاکھوں روپے کمانے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ اور پاکستان میں ڈراپ شپنگ کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس میں صرف آرڈر موصول کرنا ہوتا ہے، اور اشیا کو سپلائر سے براہِ راست کسٹمر تک پہنچانا ہوتا ہے۔