شپ بریکنگ یارڈ سے اربوں روپے کا منافع، مقامی آبادی ثمرات و سہولیات سے محروم


حب(قدرت روزنامہ)گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں اربوں روپے کی سرماریہ کاری ومنافع وحکومتی محصولات لیکن مقامی آبادی تمام تر ثمرات وسہولیات سے محروم ناکارہ بحری جہازوں کے قبرستان میں مقامی افراد پر روزگار کے دروازے تو بند ہیں لیکن سمندری ماہی گیری کا روزگار بھی سمندری آلودگی کے سبب ناپید ہو کر رہ گیا ایک طرف سہولتوں کا فقدان تو دوسری جانب مقامی افراد بیروزگار ی کے آسیب کا شکار ہیں دعوے تو گرین شپ یارڈ کے کئے جارہے ہیں لیکن سمندری آلودگی پر قابو پانے کے حوالے سے اقدامات کا فقدان ہے ناکارہ بحری جہازوں سے برآمد ہونے والے فاضل مادے کو تلف کرنے کا منصوبہ بھی مکمل نہ ہو سکا ادارہ تحفظ ماحولیات کے حکام بھی خاموش تماشائی بن گئے صرف پر اسرار دوروں پر زور ہے اس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ ایشیا کی تیسری بڑی شپ یارڈ بلوچستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر حب سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گڈانی کے ساحل پر قائم ہے ماضی میں تو اس صنعت پر ھکومتی اداروں کے افسران کے راج کی وجہ سے نہ تو اعلیٰ سطحی حکومتی اداروں اور نہ ہی عالمی سطح پر مزدوروں کے حقوق اور انکے تحفط سمیت سمندری آلودگی کے حوالے سے کوئی توجہ رہی لیکن 2016ءمیں ہونے والے ایک بڑے حادثے اور سانحہ کے بعد نہ صرف حکومتی سطح پر قائم اعلیٰ سطحی ادارے بلکہ عالمی ادارے بھی اس جانب متوجہ ہو ئے لیکن ابھی تک ان اداروں کی کاوشیںحقیقی معنوں میں مزدوروں اور مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکافی نظر آتی ہیں شپ یارڈ میں سرگرم ایک مافیا کی وجہ سے مقامی افراد پر روزگار کے دروازے تو بند ہیں لیکن سمندری آلودگی کی وجہ سے گڈانی کے مقامی ماہی گیروں کا انکے آباد اجداد کا ماہی گیری کا روزگار بھی چھن چکا ہے مقامی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک سے اسکریپ کیلئے لائے جانیوالے ناکارہ بحری جہازوں میں موجود فاضل مادے سمندری برد کرنے کی وجہ سے مقامی ماہی گیر جو کہ اپنی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے مچھلی کا شکار کرکے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے تھے اب وہ اس سے بھی محروم ہو چکے ہیں سمندری آلودگی کو روکنے کے حوالے سے ادارہ تحفظ ماحولیات کے ایکٹ کے تحت ا±ن پر عملدرآمد کے بجائے مذکورہ ادارے کے افسران کی مبینہ طور پر جیبیں گرم کی جاتی ہیں EPAکے اعلیٰ حکام آئے روز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے دورے تو کرتے ہیں لیکن ادارے کے لاگو قوانین کے عملدرآمدمیں ناکام ہیں ناکارہ بحری جہازوں سے نکالے جانے والے فاضل مادوں کو تلف کرنے کا منصوبہ ابھی تک ادھورہ ہے جبکہ دوسری طرف شپ بریکنگ یارڈ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے ساہوکار اپنا منافع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سالانہ اربوں روپے کے مختلف ٹیکسز ادا کرتے ہیں لیکن مقامی لوگوں کو روزگار تو درکنار انہیں CSRکی مد میں کوئی سہولت دینے سے قاصر ہیں گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے قرب وجوار کے دیہات پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں المیہ تو یہ ہے کہ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے محنت کش بھی کھارا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں حالانکہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کا پلانٹ بھی لگا رکھا ہے لیکن اسکا پانی شپ بریکرز نے محض یہ کہہ کر خریدنے سے انکار کر دیا کہ وہ پانی انہیں مہنگا پڑتا ہے جسکی وجہ سے مذکورہ پلانٹ پچھلے کئی سالوں سے غیر فعال پڑا ہو اہے اس حوالے سے گڈ گورننس کی دعویدار حکومت کے ارباب اختیار کو فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔