پاک افغان مذاکرات ناکام کیوں ہورہے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)افغان افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے جو کہ بہت تشویش ناک ہے۔ ان حملوں میں زیادہ اضافہ 2021 میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔
اس سال جنوری سے لے کر 7 جولائی تک پاک فوج نے افغان سرزمین سے دہشت گرد حملوں میں ملوث 297 دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے جبکہ پاک فوج کے 111 جوان اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ پاک فوج روزانہ کی بنیاد پر 126 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کر چکی ہے لیکن دہشت گردی کی لہر میں کمی نہیں آ رہی۔
15 جولائی کو بنوں چھاؤنی پر حالیہ حملے میں آٹھ فوجی جوانوں کی شہادت اور 10 دہشت گردوں کی ہلاک کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف دی مشن کو احتجاجی مراسلہ دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کی روک تھام کے لیے باقاعدہ مذاکرات ہو رہے ہیں؟ اور اگر یہ مذاکرات ہو رہے ہیں تو ان کے نتائج ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
دوسری جانب افغان سرزمین سے پاکستان میں موجود قوم پرست جماعتوں کی حمایت نظر آتی ہے۔ بیرون ممالک یہ تنظیمیں جب پاکستان کے خلاف من گھڑت الزامات پر احتجاج کرتی ہیں تو ان میں افغانیوں کی شرکت انہیں مزید مشکوک بناتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین دہشت گردی کے حوالے سے، ذمے دار حکومتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تسلسل سے مختلف موضوعات پر مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی ہم نے افغان سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف دی مشن کو بنوں حملے کے حوالے سے ڈی مارش (احتجاجی مراسلہ) دیا ہے۔ اب افغان عبوری حکومت کی جانب سے ہمیں جواب کا انتظار ہے، اس کے بعد پاکستان اپنا لائحہ عمل طے کرے گا۔
کل لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے پشتون تحفظ موومنٹ کی کال پر ہونے والے احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تو سیاست میں ہوتا ہے۔ پی ٹی ایم ہو یا ٹی ٹی پی یہ ہمارے اندرونی مسائل ہیں اور ہم ان کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی دوسرے ملکوں میں ٹی ٹی پی اور طالبان کے مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ اس طرح کی سیاست پاکستان بھی کر سکتا ہے۔
سابق پاکستانی سفارتکار ایمبیسیڈر عبدالباسط نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں مشکوک ایجنڈا پر کام کرتی ہیں اور ان کو ان قوتوں کی آشیرباد حاصل ہے جو پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یہ سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی حرکیات کے تناظر میں، مغربی قوتیں پاک چین تعلقات اور اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو منفی طریقے سے متاثر کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتہائی محتاط انداز میں قدم اٹھائے اور کسی ایسے اقدام سے گریز کرے جس کے نتائج پر قابو پانا مشکل ہو جائے۔
افغان بلیک اکانومی اور بھارت کا اثر و رسوخ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ ہے؛ سید محمد علی
دفاعی تجزیہ نگار سید محمد علی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ افغانستان میں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان وہاں سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے جس کے پاس چھ ہزار دہشت گرد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ نظام موجود نہیں لیکن جس طرح سے پاکستان کے سفیر افغانستان میں موجود ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں دوحہ مذاکرات میں سولہ ملک موجود تھے جہاں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے مطالبات بھی واضح ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مطالبات مانے کیوں نہیں جا رہے تو اس کا جواب یہ ہی کہ افغان عبوری حکومت کو دنیا نے فی الحال تسلیم نہیں کیا اور ان پر بین الاقوامی پابندیاں ہیں۔ افغانستان کی ساری معیشت کا دارومدار بلیک اکانومی پر ہے جس کے لیے ان کا انحصار پاکستان پر ہے، تو جب پاکستان ڈاکیومینٹیشن کی بات کرتا ہے، بارڈر کے نظام کو سخت کرنے کی بات کرتا ہے تو یہ چیز افغان حکام کو اچھی نہیں لگتی۔ انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت پاکستان کے امن کو دو طرح سے عدم استحکام کا شکار کرتی ہے۔ ایک تو افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی سہولت کاری کے ذریعے دوسرا قوم پرست جماعتوں کی پشت پناہی کے ذریعے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین روایتی اور غیر روایتی ذرائع سے بات چیت تو ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے کامیاب ہونے کی امید اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک افغانستان عالمی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو جاتا اور اس کا انحصار بلیک اکانومی کی بجائے دستاویزی معیشت پر نہیں ہو جاتا۔