جسٹس سردار طارق مسعود کا چیف جسٹس کو صحافیوں سے محتاط رہنے کا مشورہ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ہر سال ستمبر کے دوسرے ہفتے کے پہلے پیر کو پاکستان میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے جس کے لیے سپریم کورٹ میں باقاعدہ تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس میں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان شرکت کرتے ہیں۔
اس سال بھی سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ون میں ایسی ہی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے علاوہ تمام جج صاحبان نے شرکت کی۔ تقریب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل کے صدر و وائس چیئرمین نے بھی خطاب کیا۔
تقریب کے آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خطاب کیا جس میں انہوں نے اپنے منصب سنبھالنے سے لے کر اب تک حاصل کی گئی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ تقریب کے بعد چائے اور ریفرشمنٹس کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں پر ججز، وکل اور صحافیوں کو ملاقات کا موقع میسر آیا۔
آج کی تقریب میں راقم الحروف کے سوال کے جواب میں جہاں چیف جسٹس نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول کرنے کے امکان کو مسترد کیا وہیں کچھ اور دلچسپ باتیں بھی ہوئیں۔
رانا ثناء اللہ سے تو اس میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توسیع سے متعلق یہ بھی بتایا کہ حکومت خاص طور پر مجھے توسیع دینا چاہتی تھی تو ایک میٹنگ جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اور جسٹس منصور علی شاہ موجود تھے یہ کہا گیا کہ تمام چیف جسٹس صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع کر دیتے ہیں تو میں نے کہا کہ باقیوں کے لیے کر دیں میں قبول نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ تو اس میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے۔
میں لکھی ہوئی تقریر بھول جاتا ہوں‘
صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی ملاقات میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ پہلے تو چیف جسٹس صاحبان کی ایسی موقعوں پر کی جانی والی تقاریر تحریری صورت میں میڈیا کو مہیا کر دی جاتی تھیں، کیا آپ نے بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں کی کیونکہ ہمیں اس کی کاپی نہیں ملی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں کبھی بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں کرتا کیوں کہ میں وہ وہ بھول جاتا ہوں میں تو بس ہمیشہ پوائنٹس لکھ کر تقریر کرتا ہوں۔ اس پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں کرتے تو کیا آپ ان سے متاثر ہیں تو اس پر چیف جسٹس نے بنا کوئی بات کیے کندھے اچکانے پر اکتفا کیا۔
یو ٹیوب میں یہ باتیں کیوں نہیں ہوتیں‘
وی نیوز نے جب چیف جسٹس سے کہا کہ آپ نے سپریم کورٹ کو بہت جمہوری انداز میں چلایا ہے اور 3 رکنی بینچ کے تصور کو توڑا ہے تو چیف جسٹس کہنے لگے کہ یہ باتیں یوٹیوب میں تو نہیں ہوتیں۔
ہو سکتا ہے ججوں کی تعداد میں اضافے کا مقدمہ میرے پاس ہی آ جائے‘
ایک صحافی نے سوال کیا کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کی جائے گی اس پر آپ کی کیا رائے ہے تو چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ابھی میں اس بارے میں پڑھوں گا کہ اس پر قانون کیا کہتا ہے۔
انہوں نے صحافی کو مشورہ دیا کہ بہتر یہ ہے کہ اس بارے میں آپ پارلیمانی کمیٹی سے استفسار کریں اور ہو سکتا ہے کہ یہ مقدمہ میرے پاس ہی آ جائے۔
ساری باتیں ادھر نہ کریں یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود
چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے کہ سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج، جسٹس سردار طارق مسعود وہاں آئے اور چیف جسٹس سے ازراہ تفنن بولے کہ ساری باتیں ادھر نہ کر دیں یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں۔