مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم پر مزید مشاورت کے لیے حکومت سے وقت مانگ لیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومتی وفد آئینی ترامیم پر حمایت حاصل کرنے کے لیے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے گھر پہنچ گیا، جہاں حکومتی وفد اورمولانا فضل الرحمان کے درمیان عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم پرمشاورت کی گئی اور حکومتی وفد نے ترامیم کے لیے سربراہ جے یو آئی سے حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔
ہفتہ کے روز حکومتی وفد جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا جہاں وفد میں شامل وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے اور ان سے مجوزہ آئینی ترامیم پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی وفد نے ملاقات میں مجوزہ آئینی ترامیم اورعدالتی اصلاحات پر مولانا فضل الرحمن کو آگاہ کیا
میڈیا رپورٹس کے مطابق کہ حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھانے کی بجائے اب آئینی عدالت قائم کرنے کے لیے ترمیم لا رہی ہے جسے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کی حمایت ملنے کے بعد دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا، نئی آئینی ترمیم میں ایک الگ سے آئینی عدالت کا قیام شامل ہے جس کا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز میں سے ہی لگایا جائے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سینیٹ میں نائب وزیراعظم اور قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، اگر ہم آج 18 سال بعد یہ کام کرسکتے ہیں تو ہمیں کرنا چاہیے۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 25 فیصد آئینی کیسز ہیں، اگر عدالتوں پر سے مقدمات کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے تو اس کام میں سب کو ساتھ دینا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر نئی آئینی عدالت کے قیام کے لیے ترمیم کا ساتھ دینے کے لیے ہمارے پاس ممبران پارلیمنٹ کے نمبرز پورے ہوں گے تو کریں گے، نہیں ہوں گے تو نہیں کریں گے، قومی اسمبلی میں بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں سینیٹ ارکان بھی شامل کیے جانے چاہییں۔
اسحاق ڈار نے مزید بتایا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا خاکہ موجود ہے اور اس پر بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی چھپانے والی بات نہیں ہے ہم آئینی عدالت کے قیام کے لیے آئینی ترامیم لا رہے ہیں۔ ججز کی ریٹائرڈمنٹ کی عمر کی حد نہ بڑھائیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت فیصلہ کرے گی کہ 5 سینیئر ججز میں سے کس کو چیف جسٹس بنانا ہے، تیسری ترمیم ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق ہو گی، ترمیم کے مطابق ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کو ملک میں کہیں بھی تقرر کیا جا سکے گا۔
دوسری ترمیم چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ہو گی۔ جب کہ ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کے لیے متعلقہ جج سے مشاورت کی شق ختم کی جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے عدالتی اصلاحات بل کا مسودہ اور غور کے لیے وقت مانگ لیا ، حکومت کا آئینی ترمیمی بل آج پیش نہ کیے جانے کا امکان ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کا گرین سگنل ملنے کی صورت میں آئینی ترمیمی بل کل تک مؤخر ہو سکتا ہے۔
حکومت عدالتی اصلاحات سے متعلق 20 سے زیادہ نکات پرغورکر رہی ہے ، مولانا فضل الرحمن کا مؤقف ہے کہ ترامیم کا جائزہ لے کر ہی واضح مؤقف دیا جا سکے گا ، مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالتوں کے قیام کی تجویز دی ہے، وزیر اعظم نے آئینی ترمیم سے قبل مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرادی ہے۔
ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کے لیے متعلقہ جج سے مشاورت کی شق ختم کی جا رہی ہے، بیرون ملک سے کچھ لوگوں کی وطن واپسی پر آئینی ترمیم پیش کر دی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومتی وفد کے سامنے مجوزہ آئینی ترمیم کی حمایت کے لیے 2 شرائط رکھ دیں، ایک کہ قانون سازی کسی فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہ ہو اور دوسرا یہ کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کا مسودہ پہلے دکھایا جائے۔
ادھروزیراعظم شہباز شریف نے ن لیگ اوراتحادی جماعتوں کے تمام ارکان پارلیمان کواسلام آباد میں موجود رہنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی وسینیٹ کے اعزاز میں دیے گئے اعشایئے میں وزیراعظم نے ن لیگی اور اتحادی ارکان پارلیمنٹ کو آئینی ترامیم پراعتماد میں لیا،اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کو آئینی ترمیم میں حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
وفاقی حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کرنے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی کابینہ کا اجلاس کل طلب کرلیا جس میں آئینی ترامیم کے مسودےکی منظوری دی جائے گی۔
واضح رہے کہ حکومت کو مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، قومی اسمبلی میں دوتہائی کے لیے حکومت کو 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہیں۔
یاد رہے کہ مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کا معاملہ واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔