اسلام آباد

سپریم کورٹ کی آزاد امیدواروں کے حوالے سے وضاحت! کیا آئینی ترمیم رک گئی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 12 جولائی کے حکم پر عمل درآمد سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر وضاحت جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب اُمیدوار ہیں، الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔
ایک طرف حکومت ممکنہ طور پر ججز کی مدت ملازمت میں توسیح کے لیے آئینی ترمیم کے لیے اپنے نمبرز پورے کر رہی ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کی جانب سے 22 جولائی کے فیصلے کی وضاحت آگئی ہے، اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کا دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے اور ججز کی مدت ملازمت میں توسیح کی آئینی ترمیم کا معاملہ بھی فی الوقت التوا کا شکار ہو گیا ہے۔
حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 2 تہائی اکثریت درکار ہوگی جس کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں 224 اور سینٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہوگی یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔
جاننے کی کوشش کی کہ کیا سپریم کورٹ کی آزاد امیدواروں کے حوالے سے وضاحت آنے بعد ممکنہ آئینی ترمیم رک جائے گئی؟
ماہر قانون علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی وضاحت میں کہہ دیا ہے کہ جو آزاد اراکین پی ٹی آئی کی حمایت کے ساتھ عام انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے وہ اب پی ٹی آئی کے اراکین ہیں اور پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں، اب حکومت کا آئینی ترمیم کے لیے اپنے نمبرز پورے کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
پی ٹی آئی اراکین اپنی پارٹی قیادت کے فیصلے کے خلاف اگر حکومت کو ووٹ دیں گے بھی تو ایک تو ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور دوسرا ان کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔
علی ظفر نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر ہوں اور میں نے اپنے اراکین کو ہدایات کر دی ہیں کہ آئینی ترمیم کے وقت ووٹ نہیں دینا، اسی طرح قومی اسمبلی کے پارلیمنٹری لیڈر نے بھی ہدایات دے دی ہیں کہ ووٹ نہیں دینا تو اب پی ٹی آئی اراکین چونکہ ووٹ دے ہی نہیں سکتے اگر وہ ووٹ دیں گے بھی تو ان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا تو اس لیے اب آئینی ترمیم کی گیم ختم ہو گئی ہے۔
سینیئر صحافی انصاف عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے آئینی ترمیم کے لیے راستہ بند کر دیا ہے اور پارلیمنٹ اور حکومت کو بالکل بے بس کر دیا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ حکومت اور پارلیمنٹ کیا کرتی ہے، حکومت مولانا فضل الرحمان کی 4 نشستوں کی سپورٹ تو حاصل کر لے گی لیکن آئینی ترمیم کے لیے اس کو پی ٹی آئی کے ارکان کی سپورٹ کی بھی ضرورت ہوگی جو کہ آج کی سپریم کورٹ کی وضاحت کے بعد ناممکن سا لگ رہا ہے۔
انصار عباسی نے مزید کہا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے پی ٹی آئی کے ان 4 اراکین کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی جن کا ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تھا تاہم اب سپریم کورٹ کی وضاحت جاری ہونے کے بعد ان اراکین کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو جائے گا اور حکومت کے لیے اپنے نمبرز پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا اب بھی اگر وہ 4 اراکین حکومت کی ترمیم کی سپورٹ کرتے ہیں تو یہ فلور کراسنگ ہوگی اور فلور کراسنگ کے تحت اب آئینی ترمیم نہیں ہو سکتی وہ اراکین اپنی پارٹی قیادت کے فیصلے پر ہی عمل کریں گے۔
انصار عباسی نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے اب حکومت کو یا تو پاکستان تحریک انصاف کو قائل کرنا ہوگا جو کہ بہت مشکل لگ رہا ہے یا اس کے علاوہ محمود خان اچکزئی یا کسی اور اپوزیشن رہنما کو ساتھ شامل کرنا ہوگا اس سب کے علاوہ آئینی ترمیم کرنا نا ممکن لگ رہا ہے۔ چونکہ الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں ہوا اور پی ٹی آئی کی 41 نشستیں ابھی تک آزاد تصور کی جا رہی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اتوار کو ہونے والے اس اجلاس میں آئینی ترمیم پیش کر کے منظور کرا لی جائے لیکن یہ بھی بہت مشکل ہوگا۔
ماہر قانون جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت سامنے آنے کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد قومی اسمبلی میں بڑھ جائے گی اور جو مخصوص نشستیں ہیں وہ بھی پی ٹی آئی کو مل جائیں گی جبکہ حکومت کو جو تعداد حاصل تھی اس میں بھی کمی ہو جائے گی کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے چونکہ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے تو ان نشستوں کا پاکستان تحریک انصاف کو ملنے کے بعد حکومت کے لیے آئینی ترمیم کرنا ناممکن ہوگا۔
شائق عثمانی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کا نوٹیفکیشن بھی الیکشن کمیشن نے جاری کرنا ہے، ہو سکتا ہے کہ نئی قانون سازی ہونے کے بعد اب الیکشن کمیشن کہہ دے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور وضاحت سے زیادہ اہمیت نئی قانون سازی کی ہے اور ہم 41 اراکین کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے کہ اس طرح حکومت آئینی ترمیم کرانے میں کامیاب ہو جائے۔ اس سب کے لیے الیکشن کمیشن کا کردار اب انتہائی اہم ہو گیا ہے۔

متعلقہ خبریں