دی گوٹ لائف پروپیگنڈا فلم کی اصل کہانی اور سعودی معاشرے کا رد عمل

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بھارتی فلم ن ’دی گوٹ لائف‘ سعودی معاشرے سمیت مشرق ومغرب کے میڈیا میں زیر وبحث رہی جس میں پروپیگنڈا کے طور پر ایک ایسی کہانی فلمائی گئی ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں . اس فلم میں ایک ہندوستانی شخص کو سعودی عرب میں بسلسلہ روزگار مقیم دکھایا گیا ہے جس پر ظلم وستم ہوتا ہے اور کہانی کا یہ آدھا سچ پردہ سیمیں پر دکھا کر محض پروپیگنڈا کیا گیا ہے .

فلم میں دوسرا آدھا سچ چھپا لیا گیا جو کہانی کو مکمل بھی کرتا ہے اور جس میں سعودی معاشرے کے مثبت پہلو کی بھی عکاسی ہوتی ہے . اصل کہانی کے راوی سعودی باشندے عبد اللہ الدعیلج ہیں جنہوں نے فلم بننے سے 3 سال قبل ایک ٹی وی پروگرام میں مکمل اور حقیقی کہانی سنائی تھی . انہوں نے ایک ہندوستانی شخص کی روداد بیان کی تھی جو سعودی عرب میں مزدوری کرنے آیا تھا . اس کی زندگی کے پیچیدہ واقعات کو فلم میں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا لیکن اصل حقیقت کچھ اور تھی . یہ ہندوستانی شخص جو کہ ہندو مذہب کا پیروکار تھا سعودی عرب میں اپنے کفیل کے لیے بکریاں چراتا تھا . وہاں اس کی ملاقات ایک اور ہندوستانی مزدور سے ہوئی جو قریب ہی ایک چراگاہ میں کام کرتا تھا . ان دونوں کے درمیان دوستی ہو گئی اور اس ہندوستانی دوست نے اسے عربی زبان سکھانی شروع کردی جو کہ اس کے کام میں مددگار ثابت ہوئی . اسی دوران اس نے کام کرنے کے مختلف طریقے بھی سیکھے لیکن اس کا دوست کبھی اسے فرار ہونے کی ترغیب نہیں دیتا تھا جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا تھا . بلکہ وہ اسے اپنے حق کی بات کرنے اور اپنے کفیل سے اپنی واجب الادا تنخواہ کا مطالبہ کرنے کی تلقین کرتا تھا . یہ ہندوستانی مزدور کئی بار اپنے کفیل سے تنخواہ کا مطالبہ کرتا رہا لیکن ہر بار اسے انکار کا سامنا کرنا پڑا . جب معاملات حد سے تجاوز کر گئے تو اس نے درخواست کی کہ اسے واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے لیکن کفیل نے اس کی وہ درخواست بھی رد کر دی . کفیل اور مکفول کےدرمیان حالات کشیدہ ہوے اور ایک دن جب وہ کام کے دوران اپنے کفیل سے ملا تو دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوگئی . ہندوستانی شخص نے غصے میں آ کر قريب پڑا لوہا اٹھایا اور اپنے کفیل پر وار کر دیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی . یہ واقعہ جب کفیل کے خاندان کے علم میں آیا تو انہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور اس ہندوستانی شخص کو گرفتار کر لیا گیا . اسے قصاص میں قتل کرنے کی سزا سنائی گئی لیکن جب علاقے کے معززین کو اس کی پوری کہانی کا علم ہوا تو انہوں نے کفیل کے بچوں سے درخواست کی کہ وہ اس کی حالت پر غور کریں . جب کفیل کے بچوں کو یہ علم ہوا کہ ان کے والد نے اس شخص کے ساتھ 5 سال تک ناروا سلوک کیا تھا تو وہ متفکر ہو گئے . ایک دینی عالم سے مشورہ کیا گیا جنہوں نے بتایا کہ کفیل کے ذمے اس شخص کا بہت سا حق تھا . یہ سن کر کفیل کے بیٹوں نے اللہ کی رضا کے لیے اس شخص کو معاف کر دیا اور دیت بھی لینے سے انکار کر دیا تاکہ ان کے والد کے گناہ معاف ہو جائیں . قید خانے میں جا کر انہوں نے ہندوستانی شخص کو اس معافی کی خوش خبری سنائی اور ساتھ ہی 170,000 ریال کا چیک بھی دیا تاکہ وہ اپنے وطن جا کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکے . یہ سن کر ہندوستانی شخص نے حیرانی سے ترجمان سے پوچھا کہ ’کیا میرا کفیل بھی مسلمان تھا؟‘ اسے جواب دیا گیا کہ کفیل ایک فرد تھا لیکن اس کا عمل اسلام یا سعودی عرب کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا . اسلام تو معافی، رحمدلی کی تعلیم دیتا ہے . یہ سن کر ہندوستانی شخص کے دل میں اسلام کی روشنی پھوٹ پڑی اور اس نے وہیں اسلام قبول کر لیا . اس کا نام نجيب محمد رکھا گیا اور وہ ایک مسلمان اور مالدار شخص بن کر اپنے وطن واپس لوٹا . سعودی عرب پر حقیقت سے انحراف کرکے بنائی گئی مذکورہ پروپیگنڈا فلم ’دی گوٹ لائف‘ کا جب سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو سعودی عرب کے باشندے حقائق کے اظہار کے لیے میدان میں اترے . سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے باشندوں کی مثبت بات یہ ہے کہ اپنے وطن کے دفاع میں ہمیشہ یک جان ہوکر صف آرا ہو جاتے ہیں . ’دی گوٹ لائف‘ فلم ہو یا مغربی صحافت کا پروپیگنڈا یا پھر ہم زبانوں کے ستم، ردِ عمل کے طور پر یہ ضرور ہوتا ہے کہ منفی باتوں کا دلیل اور تاریخ سے جواب دیا جاتا اور اس میں سعودی معاشرے کا ہر طبقہ حصہ لیتا ہے چاہے وہ انفرادی طور پر افراد لیں یا پھر بعض دفعہ سعودی تجارتی کمپنیاں . ایسی ہی ایک مثال ہمیں پروپیگنڈا ’دی گوٹ لائف‘کے جواب میں ایک کلپ سے ملتی ہے جس میں سعودی عرب کے قومی دن کے مناسبت سے سعودی عرب کے پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنی (مرسول) نے ایک تخلیقی نغمہ بناکر اسے فلمایا ہے . اس کلپ کو سعودی عرب کے مشہور سوشل انفلونسر نایف مدخلی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شئیر کیا . اس کلپ کے شروع میں (گوٹ) دکھلایا گیا ہے جسے اردو بولنے والے آرٹسٹ نے نغمہ سرا ہو کر سعودی عرب میں رہنے اور زندگی کے حوالے سے بول بولے ہیں . مذکورہ نغمے کا اردو ترجمہ مذورہ نغمے کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’سعودی کی دھرتی پر، دل کو سکون ملتا ہے، یہاں کے لوگ ہیں پیارے، ہر دل میں اپنا پن بستا ہے . ہر پل نیا نباہ، ہر پل نئی خوشی، سعودی کی مہمان نوازی، دل کو چھو جاتی ہے . سعودی کی سرزمین پر دل کو سکون ملتا ہے . ہر دن ہے یہاں خاص، ہر لمحہ ہے خوشی . جبکہ عربی کے بول میں عربی باشندہ غیر ملکیوں کو خوش آمدید کے ساتھ کہتا ہے کہ آپ اپنوں کے درمیان ہیں، آپ ہمیں اپنی قوت سمجھیں، ہم آپ کو اپنی قوت سمجھتے ہیں، یہی ہماری معاشرتی عادت ہے . اسے شئیر کرتے ہوے نایف المعروف بہ (نایفکو) نے لکھا کہ ’قومی دن کی مناسبت سے اس تخلیقی نغمے کی دھنیں اتنی خوبصورت ہیں کہ دماغ میں بس جاتی ہیں، یہ نغمہ مختلف زبانوں میں پیش کیا گیا ہے . جس میں اردو بھی شامل ہے، اس کے شروع میں (گوٹ) ہے، گویا یہ (دی گوٹ لائف) فلم کے جواب میں ہے‘ . ’دی گوٹ لائف‘جیسی فلمیں اکثر حقیقت سے ہٹ کر معاشرتی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں تاہم سعودی معاشرہ ہمیشہ اپنے رویے اور عملی مثالوں سے حقیقت کو اجاگر کرتا ہے . یہ فلم جس نے منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی اس کے جواب میں سعودی عوام نے متوازن اور مثبت ردعمل دیا، جس کی جھلک سوشل میڈیا اور مختلف پلیٹ فارمز پر دیکھی گئی . سعودی معاشرہ اپنی اقدار اور انصاف پر مبنی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے مخالف بیانیے کا جواب حقائق کے ذریعے دیتا ہے جس سے اس کی قوت اور سماجی استحکام کا پتا چلتا ہے . تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ پروپیگنڈا فلموں کا مقابلہ فلموں سے کیا جائے تو زیادہ مؤثر جواب ہوگا، جبکہ بالا حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقی تصویر ہمیشہ زمینی حقائق اور عوام کے طرز عمل میں پوشیدہ ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ خود بخود سامنے آجاتی ہے . . .

متعلقہ خبریں