کیا ٹیکس فائل کرنے کا کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی بھی مختلف ترجیحات ہیں۔ جس میں سے ایک ترجیح ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ہے۔ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسز کے دائرے کو بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ حکومت اب نان فائلر کی اصطلاح کو ختم کرنے جا رہی ہے۔ اور ٹیکس نہ دینے والوں پر ایسی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ جس سے وہ بہت سے کام نہیں کر پائیں گے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ پروگرام ہی سے حکومت ٹیکس میں اصطلاحات کر رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں عوام ٹیکس فائل کرنے سے گھبراتے ہیں کہ پتا نہیں ٹیکس فائل کرنے سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس حوالے سے وی نیوز نے چند ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی ٹیکس فائل کرنے سے کوئی نقصان بھی ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں ٹیکس بہت کم اکٹھا ہوتا ہے
ماہر معاشیات عابد سلہری نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے حساب سے ٹیکس بہت کم اکٹھا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے جب بھی اس تناسب میں بہتری کی بات ہوتی تھی۔ حکومتیں ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے جو اپنی آمدنی چھپاتے ہیں، ٹیکس فائلرز پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد دیتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکس فائلر بننے سے کتراتے ہیں۔ اور ماضی کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز بھی ٹیکس نان فائلر کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں۔
نان فائلر کیٹگری کا خاتمہ مثبت اقدام ہے
عابد سلہری کے مطابق موجودہ ٹیکس رفارمز میں نان فائلرکی کیٹگری ختم ہونا ایک مثبت اقدام ہے۔ فائلرز اپنی آمدنی کے تناسب سے ٹیکس دیں گے اور اس میں مختلف ایڈوانس ٹیکسز کو ایڈجسٹ کروا سکیں گے۔ کیونکہ نان فائلر کیٹگری کا خاتمہ ہماری معیشت کو دستاویزی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس لیے اگر ہمیں آئی ایم ایف اور قرضوں کا مرہون منت نہیں رہنا تو پھر ہمیں ان اصلاحات کو جاری رکھنا ہو گا۔
صدر کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست کی بنیاد اس بات پر قائم ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو خدمات اور تحفظ فراہم کرنے اور ریاست کے امور کو چلانے کے لیے ان سے ٹیکس جمع کریں پہلے ٹیکسیشن جو تھی وہ بادشاہ اور جو ڈکٹیٹرز تھے وہ اپنے ذاتی اخراجات کو پورے کرنے کے لیے جمع کیا کرتے تھے، مگر اس کے بعد جمہوری دور میں ٹیکسٹ جو ہے ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعے ریاست اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا انفراسٹرکچر اور ایسی خدمات فراہم کرتی جس سے لوگوں کو کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہو، ٹیکس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کی چوری ایک پورا کلچر موجود ہے
لیکن پاکستان میں ٹیکس کی چوری ایک پورا کلچر موجود ہے، پاکستان میں جو ایف بی آر کا محکمہ ہے اس کے افسران نے خود ایسے نظام بنائے ہوئے ہیں کہ وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں پاکستان میں کوئی بہتر اکاؤنٹیبلٹی نہیں ہے۔ ایف بی آر کے حکام جو بجٹ بنانے میں اعزازیہ لیتے ہیں اس کو وہ نقد لیتے ہیں تاکہ ان کو ٹیکس نہ دینا پڑے اس کے علاوہ ان کا جو ہاؤس رینٹ آتا ہے وہ بھی ان کو چیک کی صورت میں الگ سے ملتا ہے، تنخواہ میں نہیں آتا جس پر وہ ٹیکس نہیں دیتے تو یہ پاکستان میں چراغ تلے اندھیرے والی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ایف بی آر کے پاس ایسی طاقت موجود ہے جس پر وہ کسی بھی ٹیکس پیئر کو سمن کرتے ہیں، بلاتے ہیں اور اس کو پھر ایف بی ار میں ایک حراساں کرنے کا ماحول موجود ہے۔
صدر کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس کے مطابق ایف بی آر والے جو ہیں بالکل ان کی جو کاؤنٹیبلٹی ہے اس کا کوئی سسٹم نہیں ہے، وہ کس کو نوٹس جاری کر رہے ہیں اس کا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں ہے۔ اس نوٹس کا نتیجہ کیا نکلا ہے اس کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، کس افسر نے کتنے ٹیکس کلیکشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں، کتنی مالیت کے نوٹسز تھے، اس پر کتنا ٹیکس جمع ہوا ہے، اس وقت کوئی حساب نہیں ہے تو یہ ایف بی آر کی جانب سے جو تمام انٹرنل اکاؤنٹبلٹی ہے ان کے اندرونی جو ایک کاؤنٹیبلٹی ہے وہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ پریشانی اٹھاتے ہیں۔
ایف بی آر سے لوگ کتراتے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اب ایسا پرسپشن اور ایک ایسا تاثر قائم ہو گیا ہے کہ ایف بی آر سے لوگ کتراتے ہیں۔ ایف بی آر میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں اس وجہ سے پاکستان میں ٹیکس کی سب سے بہترین صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ ایف بی آر میں ٹیکس دینے والے اور ٹیکس جمع کرنے والے کے درمیان ایک فرق کو قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی نوٹسز جاری ہو رہے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہیں، اس کے لیے کوئی پلیٹ فارم ایسا ہونا چاہیے اور جو افسران جتنے نوٹسز جاری کر رہے ہیں ان کی اکاؤنٹیبلٹی ہونی چاہیے۔
شہریوں کو لازمی ٹیکس فائل کرنا چاہیے
ان کا کہان تھا کہ شہریوں کو لازمی ٹیکس فائل کرنا چاہیے۔ اس سے ملک، حکومت اور عوام کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ اس سب میں عوام کی سب سے زیادہ بہتری ہے۔