کنٹینر لگا کر ملک کو چلانا کون سی سوچ، حکومت عوام کی آواز سے کیوں خائف ہے؟ شاہد خاقان عباسی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان عوام پارٹی (پی اے پی) کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک برے حالات سے گزر رہا ہے، یہ کون سی سوچ ہے کہ ملک کو کنٹینر لگا کر چلایا جا رہا ہے؟، حکومت عوام کی آواز سے کیوں خائف ہے۔
اتوار کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہفتہ کے روز ایک چھوٹے سے جلسے کے لیے پورے اسلام آباد کو بند کر دیا گیا۔ لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے رات 11 بجے تک موٹر وے بند تھی، پتا نہیں کون سی سوچ ہے کہ کنٹینر لگا کر ملک کو چلانا ہے، حکومت عوام کی آواز سے کیوں خائف ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں تفریق کو ختم کرنا ہے، ملک میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے، خیبرپختونخوا کے لوگوں نے بھی کھل کربات کی کہ آج احساس محرومی ہے، کل سیاسی جماعت کا جلسہ ہورہا تھا، جلسہ کرنا سیاسی جماعت کا حق ہوتا ہے، احتجاج بھی سیاست اور جمہوریت کا حصہ ہے لیکن جس طرح سڑکیں بند کی گئی اور موٹروے پر ریت کی دیواریں ختم کی گئیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسی مہینے 2 قانون بنائے گئے جن میں سے ایک قانون جلسوں کے روکنے کے لیے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ کالا قانون ہے جو آئین سے متصادم ہے، وہ عوام کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، اس قسم کے قانون اگر آپ بنائیں گے جو عوام کے حق کی نفی کریں تو عوام میں احساس محرومی پھیلتا ہے، تفریق پھیلتی ہے۔
انہوں نے کہا کل پورا راولپنڈی بند تھا، سڑک پر کوئی گاڑی نہیں چل سکتی تھی، اسلام آباد بھی بند تھا، یہ پتا نہیں کون سی سوچ پیدا ہوگئی ہے، کیا ہم نے کنٹینر رکھ کر ملک چلانا ہے، آج حکومت خود عوام کو تکلیف دے رہی ہے، حکومت عوام کے مسائل سے کیوں خائف ہے، جلسے میں عوام اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہیں، حکومت کی سوچ میری سمجھ سے باہر ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ کالے قانون بنا کر ملک چلا سکتے ہیں، کیا آپ ایسا قانون بناسکتے ہیں کہ جو سپریم کورٹ فیصلہ کرے آپ قانون بنا کر اس کی نفی کردیں، یہ بڑے سنجیدہ معاملات ہیں، دو ہفتے پہلے ایک آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی، رات کے اندھیرے میں کوئی آئینی ترمیم نہیں دیکھی کہ آپ نے صبح ہونے سے پہلے آئینی ترمیم کرنی ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ آئینی ترمیم کریں اور عوام کے سامنے نہ رکھیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے ایک ہی راستہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی لیڈرشپ، جوڈیشل لیڈرشپ، فوج کی لیڈرشپ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر آگے کے راستے کا تعین کریں اور ملک کو اس پر چلائیں۔