احتجاج کرنے والے دکانیں بند کرانے کے بجائے ٹیبل ٹاک کریں، وزیر خزانہ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایک دن کی ہڑتال سے بڑا معاشی نقصان ہوتا ہے، صرف اسلام آباد میں آٹھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، ملک کے لیے بات کرنے والے دکانیں بند کرانے کے بجائے ٹیبل ٹاک کریں۔
اپنے ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ افراط زر کی سطح اگلے مالی سال 5 سے 6 فیصد تک ہوجائے گی اس وقت یہ 6.9 فیصد پر ہے جو کہ 44 ماہ کی کم ترین سطح پر ہے، حکومت نے شرح سود کم کی ہے اور مزید کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی وجہ سے کاروبار بند کریں یا دکانوں کو بند کرنا پڑے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں جانی نقصان الگ ہے ساتھ ہی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے، محنت بڑی محنت سے معاشی استحکام بحال کررہے ہیں مگر ایک دن کی ہڑتال پر کہوں گا کہ اس سے بڑا معاشی نقصان ہوتا ہے،صرف اسلام آباد میں آٹھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، ملک کے لیے بات کرنے والے دکانیں بند کرانے کے بجائے ٹیبل ٹاک کریں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہڑتال کے سبب ایک دن میں 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، بزنس، ایکسپورٹ، آئی ٹی سروس اور دیگر شعبے ملائیں تو یہ نقصان بنتا ہے اگر یہ ہڑتال کئی دن یا ایک ہفتے چل جائے تو کتنا بڑا نقصان ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی بھی معاشی نقصانات کا بڑا فیکٹر ہے، کل ہمارے چینی بھائیوں کی جان لی گئی، یہاں ہم چینی وفد کے ساتھ سرمایہ کاری کی درخواستیں کررہے ہیں اور دوسری طرف چینی باشندوں پر حملہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اپیل ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کریں کہ معیشت کو نقصان پہنچے۔
موجودہ معاشی استحکام کامیاب آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی معاہدے کا نتیجہ ہے، وزیر خزانہ کی بارکلیز کے وفد سے گفتگو
قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ موجودہ معاشی استحکام ایک کامیاب آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی معاہدے کی تکمیل کا نتیجہ ہے، جس کا آغاز وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا اور نگراں حکومت نے اسے کامیابی سے مکمل کیا۔
فنانس ڈویژن میں بارکلیز کے سربراہی میں آئے ہوئے سرمایہ کاروں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی بنیادی توجہ اقتصادی ڈھانچے میں ضروری اصلاحات کو یقینی بنانا ہے جس میں توانائی، سرکاری ادارے، نجکاری، ٹیکس کا نظام اور حکومت کے سائز میں کمی شامل ہیں، اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات کے عمل کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کو صرف ایک قسط وصول کرنے والا ملک سمجھا جاتا تھا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس تاثر کو ختم کیا جائے اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے شدہ اہداف کو مستقل بنیادوں پر لاگو کیا جائے تاکہ پاکستان کی معاشی استحکام کو پائیدار بنایا جا سکے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس معاہدے نے ایک بڑے اور طویل المدتی آئی ایم ایف پروگرام کی راہ ہموار کی ہے تاکہ معاشی استحکام کو مزید مضبوط کیا جا سکے اور اقتصادی ڈھانچے کی اصلاحات کو لاگو کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس استحکام کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ حکومت نے مئی اور جون تک لیٹرز آف کریڈٹ اور درآمدی بلوں کو کلیئر کیا اور تقریباً دو ارب ڈالر کی منافع و ڈیویڈنڈ کی ادائیگیاں بھی کیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ نئے مالی سال کا آغاز ایک صاف پلیٹ کے ساتھ ہوا اور پہلے تین ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں رہا، جس کی بڑی وجہ ترسیلات زر میں اضافہ، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) سے آمدنی اور آئی ٹی برآمدات سمیت خدمات کے شعبے میں نمایاں اضافہ تھا۔
انہوں نے عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری اور بین الاقوامی سرمائے کی منڈیوں تک رسائی کے حوالے سے حکومتی منصوبے پر روشنی ڈالی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے مقامی منڈی کو واضح پیغام دینے کے لیے کچھ بینک نیلامیوں کو منسوخ کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ حکومت قرضے لینے کے لیے دباؤ میں نہیں ہے اور صرف بہتر شرح پر قرضے لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ بینک نجی شعبے کو غیر جانبدار بنیادوں پر قرضے دیں اور خاص طور پر زراعت، آئی ٹی اور ایس ایم ای سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے بینکوں کو دی گئی مراعات کا ذکر بھی کیا۔
وفد کے ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ افراطِ زر کی شرح 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے ستمبر میں 6.9 فیصد پر آنا، معاشی بحالی کی مضبوط نشانی ہے۔
بارکلیز کے سرمایہ کار وفد نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے وزیر خزانہ کی جامع بریفنگ کو سراہا اور پاکستان میں نظر آنے والے استحکام اور اقتصادی اصلاحات پر مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ وفد نے پاکستانی معیشت میں سرمایہ کاری اور کاروباری تعاون کے مواقعوں میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔
سرمایہ کاروں کے وفد کو گزشتہ 12 ماہ کے دوران حکومتی اقتصادی اصلاحات اور پالیسی اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے معاشی استحکام کے حوالے سے اہم اقتصادی اشاریوں پر روشنی ڈالی جن میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، روپے کی مستحکم شرح مبادلہ، زرمبادلہ کے ذخائر اور افراطِ زر شامل ہیں، جسے انہوں نے سال بھر کا ’’بڑا مسئلہ‘‘ قرار دیا ہے۔