چمن میں سرحدی آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط: یومیہ 7 ہزار کمانے والے ماہانہ 7 ہزار نہیں کما پارہے، مظاہرین


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان میں پاک افغان سرحدی شہر چمن میں گزشتہ برس سے احتجاج پر بیٹھے لغڑی یعنی ڈیلی ویجر اتحاد کے ترجمان صادق خان کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی جانب سے سرحدی آمدورفت کے لیے شناختی کارڈ اور تذکرے کے نظام کے بجائے پاسپورٹ کو لازمی قرار دینے کے فیصلہ سے یکدم 30 ہزار سے زائد روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد متاثر ہوئے لیکن حکومت کے کان پر جون تک نہ رینگی۔
بات کرتے ہوئے پرلت یعنی دھرنا کمیٹی کے اس احتجاج کے روح رواں صادق خان نے کہا کہ ون پوائنٹ ایجنڈے پر ہم گزشتہ برس 21 اکتوبر سے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس دھرنے کو ایک سال مکمل ہوا چاہتا ہے لیکن حکومت ہمارے مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ’حکومتی بے حسی کے سبب 30 ہزار سے زائد مقامی افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔رواں برس جولائی میں حکومت اور مظاہرین کے درمیان سابق نگراں وزیر عنایت اللہ نے ثالث بن کر مذاکرات کروائے جس میں حکومت نے مظاہرین کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سابقہ نظام پر آمدورفت کو بحال کردیا تھا، تاہم صرف 3 روزہ عملدرآمد کے بعد حکومت نے پاک افغان سرحد پاسپورٹ کے بغیر عبور کرنے پر پابندی عائد کردی۔
’جس کے بعد ہم نے دوبارہ پاک افغان قومی شاہراہ پر دھرنا دے دیا، جس کا سلسلہ جاری ہے، اس ایک حکومتی فیصلے نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا ہے، نوبت اب یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دھرنا چھوڑ کر لوگ اب دوسرے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘
صادق خان کے مطابق جہاں بعض ڈیلی ویجر 7 ہزار روپے ماہانہ پر چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں وہیں ان میں بیشتر نان شبینہ کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں، پاسپورٹ یعنی ویزے کی شرط کے اس فیصلے نے چمن اور اسپن بولدک کی کراسنگ کے دونوں جانب بسے خاندانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔
چمن سے تعلق رکھنے سینیئر صحافی ستار خوندئی نے وی نیوز کو بتایا کہ ایک سال کے دوران بڑی تعداد میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے افراد یعنی لغڑی روزگار کی تلاش میں دیگر علاقوں کو کوچ کر گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ لغڑی دھرنے میں امید کی کرن پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
’فیس جمع نہ کروانے کے سبب لغڑیوں نے اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ بھی منقطع کردیا ہے اور اب یہ اپنے بچوں کے ہمراہ اس دھرنے میں شریک ہیں۔ دھرنے میں شریک مظاہرین کے لیے کئی بار دھرنا کمیٹی کی جانب سے چندہ جمع کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا جارہا ہے۔‘
کئی مخیر حضرات بھی دھرنے میں شریک ان ڈیلی ویجرز کی مدد کررہے ہیں، ایک سال کے دوران ان بے روزگار افراد کے لیے نہ تو روزگار کا بندوبست کیا جاسکا ہے اور نہ ہی کسی نے ان کے زخموں پر مرہم رکھا، ایسے میں یہ لوگ بے بسی کی تصویر بنے دھرنے میں روزانہ پہنچ جاتے ہیں۔
دھرنے سے ہجرت کرنے جانے والے جمعہ خان نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی فیصلے سے قبل روزانہ کی بنیاد پر پاکستان سے اشیا ضرورت خرید کر افغانستان میں فروخت کیا کرتا تھا، جس سے روزانہ 3 سے 4 ہزار روپے بچ جایا کرتے تھے لیکن اس کے بعد سرحد پر پاسپورٹ کی شرط لاگو کرنے سے کاروبار مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔
’9 ماہ تک دھرنے میں شریک رہا لیکن ایسے میں گھر پر فاقوں کی نوبت آگئی، اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے گھر والوں کو خدا کے سپرد کرکے کراچی کی جانب کوچ کر گیا جہاں ایک جانے والے کے قہوہ خانے پر اس وقت چائے بنانے کا کام کر رہا ہوں۔‘
جمعہ خان کے مطابق پہلے وہ ماہانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے بآسانی کما لیا کرتے تھے لیکن اب صرف 30 ہزار کی تنخواہ میں زندگی کی گاڑی کو دھکا دینا پڑرہا ہے جبکہ گھر سے دوری نے ان کی دیگر دشواریوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔