آئینی ترامیم میں شامل لوگوں کا جنازہ جلد نکلے گا ،سینیٹرز آج ہی استعفی دیں ،سردار اختر مینگل


اسلام آباد،کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے دو سینیٹرز آج استعفی دیں نہ دینے پر قانونی کاروائی کی جائے گی 26ویں آئینی ترامیم کے خلاف لائحہ عمل طے کرکے میدان بلوچستان ہوگا 26ویں آئینی ترامیم میں شامل لوگوں کا جنازہ جلد نکلے گا بلوچستان میں ایک ہفتے میں 54افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر ساجد ترین ایڈووکیٹ اختر حسین لانگواحمد نواز بلوچ موجود تھے سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ سیاسی قیادت دن رات ایک کر کے انہوں نے کیا غربت کی خاتمے کے لیے کیے گئے کیا ملک کی معیشت کو ختم بہتر کرنے کے لیے کیے گئے صرف اور صرف کسی نے اپنے اقتدار کے لیے اس کو سیکیور کرنے کے لیے اور کئیوں نے آنے والے دنوں میں الیکشن اور اقتدار کے لیے اپنی سی وی بنا کر اداروں کے سامنے پیش کی اپنی کارکردگی اپنے اکابرین کی جمہوریت کی خاطر قربانی کو ملیا میٹ کر کے ان کی جمہوریت کے لیے قربانیوں کو نظر انداز کر کر ان قوتوں کا ساتھ دیا جنہوں نے اس ملک کی جمہوریت پر ہمیشہ شب خون مارا ان قوتوں کے الہ کار بنے جن کے ہاتھوں سے ان کے ناقص سیاسی اکابرین ان کے خاندان کے لوگوں کو شہید کیا گیا ان کو تو ان مظلوم عوام کی کوئی فکر نہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ابا اجداد کی وہ قبریں بھی بھلا دیں وہ خون کے دبے جو کسی کے سینوں پہ تھے ان شہیدوں کے چاہے وہ کراچی کے کارساز ہمدر میں شہید ہوئے ہوں چاہے جمہوریت کے لیے کسی نے کی بحالی کے لیے کسی نے کوڑے کھائے ہوئے ہیں یا ان کے بزرگوں کی جو قربانیاں تھیں ان خون کے چھینٹے اب یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ کسی ڈکٹیٹر کی وردی پہ ہیں بلکہ ان جمہوریت پسند اور ان اقتدار پسند کی چہروں اور دامن میں جو ہے واضح اور صاف نظر ارہے مولوی نے اس پارٹی نے ہمیشہ پارلیمانی جمہوری سیاست کو اپنایا ہم نے ہمیشہ اس ملک کے آئین میں رہتے ہوئے اپنے حق اور ہمارے صوبے میں جو ناانصافی ہیں ہوئی ہیں اس کا تذکرہ کرتے رہے یہاں کے ایوانوں میں ہم نے آکے بات کی یہاں پر کانسٹیٹیوشن ایونیوز پر ہم نے بات کی یہاں کی عدلیہ کے سامنے اپنی فریادیں سنائی یہاں پر پولیٹیکل لیڈرشپ کے سامنے ہم نے اپنی فریادی سنائی یہاں پہ عسکری قیادت کے سامنے ان ظلم و زیادتیوں کی ہم نے نشاندہی کی لیکن بدقسمتی سے ہماری وہ آئین نے لپٹی ہوئی اور جمہوری انداز میں باتیں بھی ان کو گوارا نہیں ہوئی اور ہمیں دیوار سے دھکیلنے کی کوشش کی اور جس کی وجہ سے اسی مقام پر تین ستمبر کو میں نے اسمبلی سے استعفی دیا اور پھر بھی ہم نے بات چیت کی ہے ،دروازے بند نہیں کیے جب کانسٹیٹیوشن امینڈمنٹ کی بات ہوئی ائی تو انہوں نے مجھ سے رابطے کی رابطے کے بدلے میں میں نے ان سے اس کانسٹیٹیوشن کا راستہ مانگا امینڈمنٹ کی جو ان کے پاس نہیں تھا جس کو اپ بدقسمتی بھی کہیں جس کو اپ ایک شرمناک عمل بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو امینڈمنٹ ہو لانا چاہتے ہیں اس کا ڈرف ان کے پاس نہیں جو اس کو اپنا اس کو امینڈمنٹ کو کا جو اپنے اپ کو خالق سمجھتے ہیں اور ہمارے جو سینٹرز تھے ان پر دبا ڈالا گیا ان کے بچوں کو اغوا کیا گیا،خاتون سینٹر کے شوہر کو اغوا کر دیا گیا اور اس کے بعد اس خاتون کو اپ سب کے کیمروں کے سامنے جب سینٹ کے فلور پر لایا گیا تو وہ بات بھی نہیں کر سکتی تھی اس کے انسو ٹپک رہے تھے اور اس فلور پر جو خواتین کی حقوق کی بات کرتے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں وہ انکھیں نیچے کیے ہوئے کیا بلوچستان کے سینٹرز کی کوئی عزت نہیں جن کو اپ لوگوں نے بھیڑ بکریاں سمجھ کر اپ ان کو گھسیٹتے ہوئے ایوان میں لاتے ہیں ان سے ووٹ دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں آئینی ترامیم 73 کے آئین کیا ذوالفقار علی بھٹو نے بہتر کہا اس لیے بنایا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کی امینڈمنٹ جو اس میں لائی جاتی ہے بلوچستان کے لوگوں کی خواتین کی چیخ و پکار و آنسو اس میں شامل ہوں کیا اس لیے بہتر کہ ائین کو جو ہے وہ سینہ تان کر کہتے ہیں کہ جی 73 کا ائین ہم لائے ہیں اٹھویں ترامیم ہم لائے ہیں یہ کون سی ترامیم ہے اغوا برائے تعاون تو ہم نے سنا تھا اغوا ووٹ ہم سب نے اپنی انکھوں کے سامنے اپ نے بھی دیکھا ہوگا اج میں نے کوشش کی کیونکہ ہمارے سینٹروں سے کوئی رابطہ نہیں تھا ان کے موبائل بند تھے وہ گھر پہ موجود نہیں تھے ہم نے بھر پور کوشش کی کہ ان سے رابطے کی کوئی رابطہ نہیں ہو تو میں آج خود سینٹ میں زندگی میں پہلی مرتبہ سینٹ کی گیلری میں گیا ہوں کہ صرف جا کے ان سے دیکھوں ان کو کہوں کہ نہیں اپ فکر نہ کریں میں ہوں پہلے ہمیں گیلری سے نکال دیا گیا کہ میں مجھے دیکھتے ہوئے کہیں وہ اپنا فیصلہ نہ تبدیل کریں جب میں لابی میں بیٹھا جا کے کیونکہ جب ووٹ دینے کے بعد ان کو لابی میں آنا ہوتا ہے تو کہیں وہ مجھے دیکھ کر اپنا فیصلہ نہ بدل دیں بزور طاقت فورس کا استعمال کر کے ہمیں لابی سے نکال دیا گیا ان کا یہ عمل میں نام کر کے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ اس شرمناک عمل میں برابر کے شریک ہیں چاہے اس میں میاں نواز شریف ہوں چاہے اس میں پرائم منسٹر شہباز شریف ہوں چاہے اس میں اصف زرداری ہوں یا بلاول بھٹو یا ان کی ٹیم ہو اس شرمناک عمل میں اج پھر پیپلز پارٹی نے 1973 کی یاد پھر کی تعریف دولائی اج پھر پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے نے بے نظیر کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے نانا کے نقش قدم پر چل کر بلوچستان کے لوگوں کے نہ کہ صرف پیٹھ پر بلکہ سینے پر جو ہے اس آئینی ترامیم کے ذریعے جو ہے نا انہوں نے خنجر کو جہاں تک ہمارے مجھے معلوم ہے کہ اپ لوگ یہ سوال بھی کریں گے ان ہمارے ممبران کا سینیٹروں کا جو تعلق ہے انہوں نے ووٹ دیا ہے مجھے ان کی اس مجبوری کا اندازہ ہے مجھے یہ اندازہ ہے وہ کس کورس سے گزرے ہوں گے لیکن پارٹی کا فیصلہ ایک اصولی فیصلہ ہے انہوں نے پارٹی کی فیصلے کی خلاف ورزی کی چاہے وہ مجبوری کے تحت کیے چاہے زور کے ذریعے کیے پارٹی کے فیصلے کے خلاف ورزی پر ان کو ہدایت جاری کی جاتی ہے کہ کل تک سینٹ سے اپنے استیفے میرے پاس جمع کرتے ہیں نہ تو پارٹی ان کے نہ تو پارٹی ان کے خلاف خود کاروائی کرنے کا جو ہے حق اور اختیار رکھتی ہے یہ کون سی ترامیم ہے جس کو کہتے ہیں کہ جی ہم نے کیا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ سب کونسلز کنسنسس بنائیں کونسلسز بنائیں یہی بندو کی نوک پہ اپ کنسنس ہے پہلا کرتے ہیں ایک فیڈریٹنگ یونٹ خیبر پختون خواہ کہ اگے سے زیادہ جو ہے نمائندگان اس میں موجود نہیں اپ کی ایک بڑی پولیٹیکل پارٹی جس کو اپ نے عبدالوسہ کوشش کی کہ اس کو دیوار سے لگائیں اس کا مینڈیٹ چراغ کی بھی اپ اس سے اس کا مینڈیٹ نہیں چھین سکے وہ بھی اس میں شامل نہیں اپوزیشن میں وہ جماعتیں بھی اس میں شامل نہیں پھر بھی اپ کہتے ہیں کہ یہ باہمی رضا اور کنسنس سے یہ اپ لوگ نے اس آئینی ترامیم کو لائیں اور وہ پاس یہ جھوٹ اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں یہ لوگوں کی انکھوں میں دور جھونکنے کے برابر ہے تو اپ تمام صافی حضرات کا شکریہ کہ اپ نے ہمیں وقت دیا اگر کوئی سوال ہے جو ترامیم ان لوگوں نے آج پیش کیے ہیں ان سیاسی پارٹیوں کا بوری بسترہ انہی ترامیم سے گول ہوگا