مدارس بل کی منظوری کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی ڈیڈ لائن، مدارس بل ہے کیا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جمعیت علما اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو دینی مدارس کی رجسٹریشن کے بل کی منظوری کے لیے ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر بل پر فوری دستخط نہ ہوئے تو حکومت مردہ باد تحریک شروع کردی جائے گی جبکہ جے یو آئی رہنما سینیٹر عبد الغفور حیدری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی جانب مارچ بھی کیا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کا بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد ایوان صدر بھیجا گیا تاہم وہاں سے منظور نہیں ہو سکا اور صدر نے 8 مختلف اعتراضات عائد کر کے بل واپس کر دیا ہے۔
جے یو آئی رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا بل جے یو آئی کا نہیں بلکہ حکومت کا بل تھا البتہ یہ مطالبہ ہماری ہی پارٹی کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی بل پیش کرنے سے قبل کابینہ اسے زیر غور لانے کے بعد منظور کرتی ہے جس کے بعد یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیا جاتا ہے یہ بل پہلے بھی کابینہ میں منظور نہیں ہو سکا تھا تاہم اب یہ کابینہ اور دونوں ایوانوں سے تو منظور ہو گیا لیکن صدر کی جانب سے 8 اعتراضات کے ساتھ واپس کردیا گیا۔
کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ایسے بہت سے مدارس ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور وہ سرکاری کھاتے میں ہی نہیں ہیں لہٰذا اس بل کی منظوری کے بعد ملک میں موجود تمام مدارس سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل کے تحت رجسٹرڈ ہو جائیں گے اور معلوم ہو سکے گا کہ مدرسہ کہاں ہے اور آیا وہ چل بھی رہا ہے یا بند ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ مدارس کو سوسائٹیز رجسٹریشن کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہیے اس سے مدارس کی آزادی اور خود مختاری برقرار رہے گی اور حکومت کا ان مدارس پر کسی حد تک تو کنٹرول ہو گا لیکن وہ نصاب اور دیگر معاملات میں آزاد ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بل کی منظوری کے بعد مدارس کا آڈٹ کیا جاسکے گا اور ان کو ایسے نصاب کا بھی پابند کیا جائے گا جس سے نفرت، انتشار یا فرقہ واریت کو فروغ نہ ملے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بل کے ذریعے ہم نے خود کو قانونی دائرے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور علما کی بڑی تعداد نے اپنے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے پیش کیا ہے جو کہ خوش آئند امر ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی کا مؤقف ہے کہ حکومت نے جس طرح سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نظام کو کافی حد تک متاثر کیا ہے بالکل اسی طرح دینی مدارس بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جماعت اس بل کے ذریعے دینی مدارس کو حکومت کے اثر ورسوخ سے آزاد رکھنا چاہتی ہے لیکن ہم حکومت سے تصادم نہیں چاہتے۔
ان کا کہنا تھا ہمارا مطالبہ ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن ہونی چاہیے لیکن حکومت یہ نہیں چاہتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایک مدرسہ رجسٹرڈ ہوگا تو یہ ریاست کے لیے مفید ہوگا اس طرح مدارس مملکت کے نظام میں رہیں گے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس بل پر حکومت کے ساتھ مذاکرات تقریباً کامیاب ہو چکے ہیں اور ہمارے مطالبات معمولی تبدیلی کے بعد کافی حد تک مان لیے گئے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظمین نے بھی حکومت سے بل کی فوری منظوری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کی آزادی و خود مختاری کو سلب کرنے کے لیے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہوں گے۔