پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومت نے شرائط رکھ دیں
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ارکان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات پر مشروط آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی تحریک واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جب حکومت نے مذاکرات کی پیشکش کی تو پی ٹی آئی نے حکومت کے اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے جواب دیا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس مذاکرات کا اختیار ہی نہیں ہے، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر براہ راست بات چیت کے ذریعے ہی حقیقی حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے کبھی بند نہیں ہوتے لیکن اس طرح رسمی بات چیت کو کبھی بھی باضابطہ مذاکرات نہیں سمجھا جا سکتا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران بھی حکومت نے رابطے برقرار رکھے لیکن اسے مذاکرات کا نام نہیں دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب حکومت نے باضابطہ طور پر مذاکرات کی تجویز پیش کی تو پی ٹی آئی نے حکومت کی ساکھ اور اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے مذاکرات کو مسترد کردیا۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ماہ قبل پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کے فلور پر مذاکرات کی دعوت دی تھی اور انہیں مذاکرات کی میز پر آنے اور معاملات حل کرنے کے لیے کہا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد حال ہی میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مذاکرات صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں جب دونوں فریق مل بیٹھیں۔
ادھر سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے مذاکرات کے خیال کو محض اس لیے مسترد کردیا کہ تحریک انصاف اپنی سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھنے پر بضد ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی واقعی بات چیت کرنا چاہتی ہے تو انہیں اپنے تخریبی ہتھکنڈوں کو ختم کرنا ہوگا اور اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
تاہم پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر علی ظفر نے مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے جمعرات کو سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اعتماد کی فضا پیدا کرے تو مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپوزیشن اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چوہدری نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ڈراما قرار دیا اور حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ان مذاکرات کے ذریعے سابق فوجی افسر فیض حمید کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک بار پھر حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر حکومت مذاکرات شروع کرنے میں ناکام رہی تو پی ٹی آئی 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک کو تیز کرنے کے لیے تیار ہے، اس پر پی ٹی آئی کے قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے بھی زور دے کر کہا کہ وہ سول نا فرمانی کی تحریک جاری رکھیں گے۔