سیمی کنڈکٹرز : چھوٹی سی چپ جو پاکستان کو آئی ٹی شعبے میں ہارڈ ویئر پاور ہاؤس بنا سکتی ہے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وفاقی حکومت ملک میں سیمی کنڈکٹرز کی مینوفیکچرنگ کے لیے نیشنل پالیسی کی تیاری پر کام کر رہی ہے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق پالیسی جلد متعارف کروائی جائے گی جس میں سیمی کنڈکٹرز کی مقامی پروڈکشن، خام مال کی امپورٹ، انڈسٹری کے لیے سہولیات اور ایکسپورٹ جیسے معالات پر گائیڈ لائن شامل ہوں گی۔ سیمی کنڈکٹرز انڈسٹری کیا ہے، دنیا میں اس کی اہمیت کیوں اتنی زیادہ ہے اور اس شعبے میں پاکستان کے پاس چیلنجز اور فوائد کے کیا امکانات ہیں؟ کیا پاکستان انڈیا کے سافٹ ویئر پاور ہاؤس کا مقابلہ ہارڈ ویئر مینیو فیکچرنگ کو فروغ دے کرسکتا ہے؟ وی نیوز نے ان تمام تر تفصیلات کا جائزہ لیا ہے۔
بمشکل نظر آنے والا سیمی کنڈکٹرز، جو ٹیکنالوجی کی ترقی کا اہم جزو ہے
سیمی کنڈکٹر الیکٹرانک ڈیوائس کا اہم ترین حصہ ہے جس کے بغیر کسی بھی قسم کی الیکٹرانگ ڈوائس نہیں بنائی جاسکتی۔ بنیادی طور پر ایک کنڈکٹر برقی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں موبائلز سے لیکر کاروں تک اور ہر قسم کے الیکٹرانک آلات میں سیمی کنڈکٹر کے محتاج ہیں۔ سیمی کنڈکٹرز یا چپس چھوٹی سی ڈیوائس میں بھی شامل ہوتے ہیں اور دنیا کے بڑے سے بڑے ڈیٹا سینٹر میں بھی ان کی شمولیت ناگزیر ہے۔ ہارڈ ویئر مینوفیکچرنگ میں سیمی کنڈکٹرز کو دنیا کی نمایاں ترین انڈسٹریز کا درجہ حاصل ہے، عالمی سطح پر سیمی کنڈکٹرز کی پروڈکشن اور ایکسپورٹ کو مختلف ممالک کی نیشنل سیکیورٹی سے جوڑا جا رہا ہے۔ سمارٹ چپ کا تعلق سیمی کنڈکٹر انڈسٹری سے ہے جو نہ صرف نیشنل سیکیورٹی بلکہ سیکیورٹی کا بھی اہم ترین حصہ ہے۔
معمولی چپس جو انڈیا کا مستقبل اور پاکستان کیلئے نادر موقع ہے
ٹیکنالوجی کے شعبے بلخصوص آئی ٹی میں پاکستان سے کہیں آگے انڈیا کی اس شعبے پر بھی خصوصی نظر ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں نریندر مودی کی قیادت میں انڈین حکومت نے سیمی کنڈکٹرز کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم سیمی کنڈکٹرز کی مقامی سطح پر تیاری کو قومی مشن قرار دے چکے ہیں جبکہ اس پر خصوصی پروگرام بھی 2سال قبل لانچ کیا گیا جس کے تحت اس شعبے کی بڑی کمپنیاں جو بلخصوص تائیوان اور امریکا سے تعلق رکھتی ہیں ان کو انڈیا میں سرمایہ کاری کے لیے تیار کرنا شامل ہے۔
بھارت اس شعبے میں ورلڈ پاور بننے کے لیے پرتول رہا ہے، جہاں اس کو چائنہ، امریکا، تائیوان جیسے حریفوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے پاس بے پناہ افرادی قوت سمیت بہت سے مواقع ہیں جو اس شعبے میں جاری دوڑ میں پاکستان کو انڈیا کے قریب لاسکتے ہیں جو اس شعبے میں دونوں ممالک کے در میان تعاون کا نیا باب کھول سکتے ہیں۔ انڈیا ٹیکنالوجی کے شعبے میں سافٹ ویئر پاور ہاؤس کے طور پر سامنے آیا ہے مگر ہارڈ ویئر میں اس کی صلاحتیں اتنی نہیں ہیں، پاکستان کو اس خلاء کو پر کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
قومی سیمی کنڈکٹرز پالیسی میں کیا کیا شامل ہوسکتا ہے؟
وزات انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق سیمی کنڈکٹرز پالیسی آئی ٹی کے شعبے میں حکومتی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔ پالیسی میں بنیادی نکتہ مقامی سطح پر پیداوار اور ایکسپورٹ ہوگا۔ حکومت پالیسی کے نفاذ کے بعد اس شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ تحقیق کے شعبے میں معاونت کی جائے گی۔ مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی انڈسٹری پر ہی انحصار کو بتدریج بڑھایا جائے گا۔ سیمی کنڈکٹرز تیار کرنے والی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو مراعات ملیں گی۔ اس شعبے کے لیے انڈسٹری کو ڈیوٹی پر چھوٹ، مشینری منگوانے کے لیے بھی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ پالیسی میں 10ارب کا نیشنل سیمی کنڈکٹر فنڈ قائم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ پالیسی کے ابتدائی خدوخال کے مطابق آئندہ 10سال کے لیے مختلف اہداف مقرر کیے جائیں گے جس کے تحت ہی مقامی پیداوار کو فروغ دیا جائے گا۔
سیمی کنڈکٹرر یا چپ کی مقامی تیاری کے لیے خصوصی قرض پروگرام
وفاقی حکومت کی نیشنل سیمی کنڈکٹرز پالیسی میں 25لاکھ سے ایک کروڑ تک کی گرانٹ ممکنہ طور پر شامل ہوسکتی ہے، جس کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ ہی دے گی۔ یہ گرانٹس بنایادی طور پر اسی نیشنل فنڈ سے دی جائیں گی جو پہلی بار 10ارب روپے سے قائم کیا جائے گا۔ سیمی کنڈکٹرز کی تیاری کے لیے گرانٹس پروگرام کے حوالے سے صدر فیڈ ریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس عاطف اکرام شیخ نے وی نیوز کو بتایا کہ اسٹارٹ اپس کے لیے گرانٹس کی فراہمی کامیابی کے لیے بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے مگر حکومت کو ان تمام چیزوں کو ایک مربوط پالیسی سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔
عاطف اکرام کے مطابق پاکستان کا اسٹارپ اپ بہت با صلاحیت ہے، فنڈز کی فراہمی اس کی ترویج میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اگر حکومت اس کا انتظام کر دے تو سافٹ ویئر کی طرح ہارڈ ویئر مینو فیکچرنگ میں بھی پاکستان کے لیے مواقع کا ایک جہاں موجود ہے۔
سیمی کنڈکٹرز کے سب سے بڑے خریدار امریکا کی توجہ حاصل کرنا اہم ہے
اس وقت دنیا میں سیمی کنڈکٹرز کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے جس کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ساری توجہ انڈیا پر ہے۔ اس کے پیچھے چائنہ کے ساتھ مقابلہ بازی ہے مگر پاکستان کو اگر مقامی سطح پر پیداوار بڑھانی اور ایکسپورٹ کے لیے بڑی منڈی تک رسائی حاصل کرنی ہے تو امریکی کمپنیوں کی توجہ حاصل کرنا ہوگی۔ ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے ڈپٹی کنوینئر ریحان صدیقی نے اس حوالے سے وی نیوز سے بات کی۔
ریحان صدیقی کے مطابق انڈیا سیمی کنڈکٹرز کی تیاری کے حوالے سے اپنے “قومی مشن” میں مسلسل امریکی کمپنیز کی شمولیت کے لیے کوشاں ہے، پاکستان کو بھی اسی راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں امریکا پر انحصار پاکستان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے کیوںکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں مگر اس حوالے سے پاکستان کو جی ٹو جی (حکومت سے حکومت ) اور بی ٹو بی (بزنس ٹو بزنس ) روابط کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ریحان صدیقی کے مطابق حکومت کو پاکستانی سرمایہ کار کو اعتماد میں لینے ضرورت ہے ۔
پاکستان میں سیمی کنڈکٹرز کی مقامی صنعت کے فروغ میں کیا مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں؟
عاطف اکرام شیخ کے مطابق پاکستان میں اس شعبے کے پھلنے پھولنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ حکومت کو نیشنل پالیسی کے نفاذ سے قبل انفراسٹرکچر کے حوالے سے مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ اس حوالے سے پرائیوٹ سیکٹر، عالمی سرمایہ کاروں اور دنیا میں اجارہ داری قائم کی ہوئی کمپنیز کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ عاطف اکرام شیخ کے مطابق بجلی کی مناسب نرخوں پراور بلا رکاوٹ فراہمی بھی اس شعبے کی ترویج کے لیے ناگزیر ہے۔
انڈیا میں انڈسٹری کے لیے اس وقت بجلی کی فراہمی 6سینٹ ہے جبکہ پاکستان میں یہ ریٹ 15سینٹ ہے۔ تائیوان دنیا میں سیمی کنڈکٹرز کے حوالے سے تیسرا بڑا مینو فیکچرر ہے جہاں انڈسٹری کو 8سینٹ سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ اتنے بڑے اور واضح فرق کے ساتھ مقابلے کی فضا کسی صورت نہیں پیدا ہوسکتی۔ اس کے علاوہ حکومت کو اس شعبے کے لیے درکار انجینئرز، تربیت یافتہ ورکرز کی تیاری کے لیے میگا پلان سامنے لانا چاہیے، اس حوالے سے پرائیوٹ سیکٹر بھرپور معاونت کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *