ریکودک پراجیکٹ میں بلوچستان کا حصہ پچیس فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کرنے کی کوشش ہورہی ہیں ،حافظ حمد اللہ


کوئٹہ (قدرت روزنامہ)ریکودک پراجیکٹ میں بلوچستان کا حصہ پچیس فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کرنے کی کوشش ہورہی ہیں مدارس ایکٹ پر دستخط نہ کرکے حکومت اخلاقی سیاسی و آئینی طور پر شکست کھاچکی ہیں اسلام کہتا ہے کہ وسائل پر پہلا مقامی لوگوں کا ہیں حکمرانوں نے معاشی و سیاسی طور پر ملک کو زمین بوس کردی ہیں حافظ حمد اللہنوشکی کلی اسٹیشن میں جامعہ محمودیہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی سے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رئنما سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ مولانا شیخ غلام نبی مولانا عبداللہ جان حافظ عبداللہ گورگیج مولانا غلام حیدر نوشکوی مفتی ہدایت اللہ و دیگر نے خطاب کیا ۔جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ حمد اللہ نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ طور پر مدارس ایکٹ پاس ہوا جس پر بڑے میاں اور چھوٹے میاں سمیت پاپا اور بیٹا سب متفق تھیں مگر اب صدر نے مدارس ایکٹ کو پاوں کی ٹوکر مارکرثابت کردی کی حکومت سیاسی اخلاقی اور آئینی طور پر شکست کھا چکی ہیں دونوں ایوانوں پاس ہونے کے بعد مدارس ایکٹ کو آئین کا حصہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا انہوں نے کہاکہ 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل جو مسودہ حکومت کی جانب سے تیار کی گئی تھی اور اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی اس مسودے کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ وزرا اور اراکین اسمبلی بھی اس بےخبر تھے اس مسودے میں 73 کی آئین میں بیس فیصدترمیم فوجی عدالتوں کی قیام اور بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی قائد جمعیت اور جمعیت علماء اسلام اس متنازعہ مسودہ کی راہ میں رکاوٹ بن کر اسکا راستہ روک کر ثابت کردی کی علماء کرام کو اسلام آباد سے نہیں بلکہ اسلام سے محبت ہیں
انہوں نے کہاکہ انگریز دور میں انگریز حکمران مدارس مساجد اور علماء کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو قرآن سے دورکیا جائے ان کے دلوں اورگھروں سے قرآن کو نکالاجائے اس مقصد کے لیے ایک ہی دن میں قرآن پاک کے لاکھوں نسخے جلاکر شہید کردئیے گئے بدقسمتی سے نیلی آنکھوں اور سفید چمڑی والے انگریز حکمرانوں کے بعد کالی آنکھوں اور کالی چمڑی والے حکمرانوں کو بھی مدارس مساجد اور علماء کرام سے عداوت ہیں گزشتہ 75 سالوں سے انگریز کے غلام حکمران اس ملک پر مسلط ہوکر اپنی آقاوں کی خوشنودی کے لیے مدارس کی راہ میں روکاوٹیں ڈال رہے ہیں انہوں نے کہاکہ عصری تعلیم بھی ایک علم ہیں مدارس کے بچوں کو انگریزی ریاضی معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان پڑھانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی مدارس کی آڈٹ پر ہمیں کوئی اعتراض ہے انہوں نے کہاکہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور آج تک مدراس نے ایسے افراد پیدا نہیں کی ہے جو معاشرے کے لیے ناسور ہوں کسی بھی چور کرپٹ ڈاکو قاتل چرسی و شرابی کا تعلق کسی مدرسے سے نہیں رہا ہیں اور نہ ہی کسی مدرسے سے اسلحہ برآمد ہوا ہے ایک دو مدرسوں سے اگر اسلحہ برآمد ہوا بھی ہو وہ ہمارے نہیں بلکہ حکمرانوں کے ہیں انہوں نے کہاکہ ساقی خانوں جواخانوں ہیرامنڈیوں پر کھبی بھی نظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی ان کوملک و معاشرے کے لیے خطرہ تصور کیا گیا ۔
انہوں نے کہاکہ ملک کو مدارس مساجد علماء کرام طلباء کرام سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ملک کے اصل دشمن حکمران ہیں پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش کو جدا کرنے والے علماء کرام نہیں تھے بلکہ کالی شیروانی اور خاکی لباس والوں نے ملک کو دو لخت کیا آج بھی ملک میں ناانصافی بدامنی سیاسی و معاشی بحرآن کے زمہ دار حکمران طبقہ ہیں انہوں نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام مذہب کے ساتھ قوموں اور انسانوں کی حقوق کے لیے بھی آواز اٹھارہی ہیں بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہیں مگر یہاں کے عوام زندگی کی تمام تربنیادی سہولیات سے محروم ہیں اگر صرف ریکوڈک کے وسائل کو بھروکار لاکر صوبے پر خرچ کی جائے تو بلوچستان جنت بن سکتا ہیں مگر بدقسمتی سے سوئی اور ڈیرہ بگٹی آج بھی گیس سے محروم ہیں اس کے باوجود کے وزیر اعلی کا تعلق ڈیرہ بگٹی سے ہیں انہوں نے کہاکہ موجودہ کٹ پتلی صوبائی حکومت کے دور میں بلوچستان کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں ہوسکتا ریکوڈک معاہدے کے تحت پچاس فیصد کمپنی کی جبکہ پچیس پچیس فیصد بلوچستان اور وفاق کا حصہ مقرر کیا گیا ہیں مگر اب سننے میں آرہا ہیں بلوچستان کے پچیس فیصد سے بھی بیس فیصد وفاق کو دینے کی کوشش ہورہی ہیں اور بلوچستان کو صرف پانچ فیصد دیکر ایک بار پھر یہاں کے عوام کی حقوق کو غضب کیا جائیگا انہوں نے کہاکہ حکمران آج بھی ملکی مفاد کی بجائے فیصلے امریکہ کے مفاد میں کررہے ہیں پاک ایران گیس معاہدہ اس کی واضع مثال ہیں ایران نے اپنے حصے کا کام کب کا مکمل کرچکا ہیں جبکہ پاکستان امریکہ کے ڈر سے معاہدے کو تاخیر کا شکار بنادیا ہیں انہوں نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام وطن پرست اور انسانیت دوست جماعت ہیں ہمیں اس ملک اور اسکی جغرافیہ سے محبت ہیں اور ہم چاہتے ہیں یہاں قوموں کو ان کے حقوق ملیں ہمیں بحثیت جماعت بلوچ پشتون سندھی پنجابی سب سے پیار ہیں جمعیت علماء اسلام تعصب تنگ نظری شدت پسندی مسلک پسندی پر یقین نہیں رکھتی ہیں انہوں نے کہاکہ ملک میں موجودہ نصاب تعلیم بھی حکمرانوں اور ان آقاوں کو پسند نہیں انکا اعتراض ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم بچوں کو اچھے مسلمان ہونے کا درس دیتا ہیں وہ نصاب تعلیم سے اسلامی تعلیمات خصوصا انبیاء کرام خلفاء راشدین امہات المومنین اور نامور اسلامی شخصیات پر مبنی اسباق نصاب سے نکالنا چاہتے ہیں ان سازشوں کے مقابلے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں علماء کرام اور مذہبی طبقہ ایک پیج پر ہوں حکمران ملا کو ملا سے لڑآنے کی کوشش کررہے ہیں ہم ان مولویوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری لڑآئی آپ سے نہیں آپ ہمارے حصہ ہیں مسلمان یکجا ہوکر سیدنا ابوبکر صدیق کے صداقت عمر فاروق کی عدالت عثمان غنی کی سخاوت اور علی المرتضی کے شجاعت کاجھنڈا تھام کر جدوجہد کریں تو ان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دیں سکتا انہوں نےکہاکہ بدقسمتی سے ملک میں فیصلے سیاسی جمہوری و آئینی طریقے کے بجائے زور زبردستی اور گولی و بندوق سے کیجاتی ہیں زبردستی فیصلے کرنے والوں کوکہنا چاہتا ہوں کہ پھر ملک کا نام پاکستان سے باروداستان رکھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *