کرم میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بھرمار ہے، مسئلہ دہشتگردی نہیں باہمی تنازع ہے، گنڈاپور
اہل علاقہ امن اور کچھ عناصر فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعے حالات خراب کرنا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ پختونخوا
پشاور(قدرت روزنامہ)وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کرم میں غیر قانونی ہتھیاروں کی بھرمار ہے، مسئلہ دہشتگردی نہیں باہمی تنازع ہے۔
کے پی کے کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیرصدارت ہوا، جس میں کابینہ کے اراکین، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور انتظامی سیکرٹریز شریک ہوئے۔
اجلاس کو ضلع کرم کی صورتحال اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے اقدامات پر بریفنگ دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے مختلف سطح پر متعدد جرگے منعقد کیے گئے ہیں۔ علاقے میں ادویات کی کمی دور کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اب تک تقریباً 10 ٹن ادویات پہنچائی گئی ہیں۔ یہ ادویات کرم کے تمام علاقوں کو فراہم کی گئیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ علاقے میں غذائی اجناس کی دستیابی کے لیے رعایتی نرخوں پر گندم فراہم کی جارہی ہے۔ کرم میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے ازالے کے لیے ادائیگیاں کی جاچکی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر علاقے کے عوام کو درپیش آمدورفت کے مسائل کے حل کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کی گئی ہے اور گزشتہ 2 دنوں کے اندر 220 افراد کو صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی۔
اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ گزشتہ روز کرم کے مسئلے پر صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ کرم تک زمینی رابطے کی بحالی کے سلسلے میں پارہ چنار روڈ کو محفوظ بنانے کے لیے اسپیشل پولیس فورس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مجموعی طور پر 399 اہلکار بھرتی کیے جائیں گے جب کہ سڑک کو محفوظ بنانے کے لیے ابتدائی طور پر عارضی پوسٹیں اور مستقبل میں مستقل پوسٹیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد سڑک کھولی جائے گی۔ علاقے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کرنے کے لیے ایف آئی اے کا پورا سیل قیام کیا جائے گا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یکم فروری تک تمام غیر قانونی ہتھیاروں کو جمع کرانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ضرورت کی بنیاد پر قانونی ہتھیاروں کے لائسنس کے اجرا کے لیے محکمہ داخلہ میں خصوصی ڈیسک قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اسی طرح یکم فروری تک علاقے میں قائم مورچوں کو بھی مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اجلاس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کرم کا مسئلہ دہشتگردی کا نہیں بلکہ دو گروپوں کے درمیان تنازع ہے۔ علاقے کے لوگ امن چاہتے ہیں لیکن کچھ عناصر فرقہ وارانہ منافرت کے ذریعے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ عناصر مسئلے کو دوسرا رنگ دینے کے لیے غلط بیانیہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں غیر قانونی بھاری ہتھیاروں کی بھر مار ہے۔ اتنے بھاری ہتھیار رکھنے اور مورچے بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت کی کوئی ایسی پالیسی نہیں کہ کسی بھی مسلح گروپ کو غیر قانونی بھاری ہتھیار رکھنے کی اجازت دے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت مذاکرات اور جرگوں کے ذریعے مسئلے کا پرامن حل نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ علاقے کے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اپنی عملداری پر سمجھوتا نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ تیراہ اور جانی خیل میں آپریشن کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔