سال 2024 میں اسلام آباد کب کب بند رہا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سال 2024 کے اسلام آباد کو کنٹینرز کا شہر کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا کیوں کہ اس سال ملک کا دارالخلافہ مختلف سیاسی واقعات اور احتجاج کی وجہ سے کئی بار بند رہا اور یہاں وقتاً فوقتاً کنٹینرز کا راج دیکھا گیا۔
یہ بندشیں عام طور پر شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینرز سے بند کر کے کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے شہریوں کو روزمرہ کی زندگی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی جانب سے بھی اسلام آباد کو ’کنٹینر سٹی‘ جیسے القابات دیے گئے۔
اسلام آباد کب کب بند رہا؟
24 نومبر
گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے سبب اسلام آباد 24 نومبر سے تقریباً 27 نومبر تک جزوی طور پر بند رہا۔ یاد رہے کہ اس لانگ مارچ کی قیادت سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کی تھی۔
احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد کو 24 مقامات پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر کڑی نگرانی اور پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی اور اسلام آباد جزوی طور پر تقریباً 4 روز تک بند رہا۔
واضح رہے کہ اس احتجاج سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد پولیس نے 24 سے 26 نومبر کو 33 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کیے۔
15 اکتوبر
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 15 اکتوبر کو بھی احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی نے احتجاج کی یہ کال عین اس موقعے پر دی جب پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا تھا لیکن پھر پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال واپس لیتے ہوئے احتجاج کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔
مگر اس کے باوجود وفاق اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے ہوئے تھے جن میں فوج کی تعیناتی سمیت مختلف شہروں میں انٹرنیٹ کی معطلی، پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی اور شہر کے داخلی و خارجی رستوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے اندرونی کچھ راستوں کو بھی بند کرنا وغیرہ شامل تھا۔
اس کے بعد 14 اکتوبر سے 17 اکتوبر تک پاکستان کی سیکیورٹی پاک فوج کے حوالے کی گئی تھی اور اس دوران شہر کی بڑی مارکیٹیں، میٹرو بس سروس اور تمام لوکل ٹرانسپورٹ کو بند کروا دیا گیا تھا۔
4 اکتوبر
اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے 4 اکتوبر کو بھی اسلام آباد اور لاہور میں احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ اس دوران بھی اسلام آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔ وہ احتجاج آئینی ترامیم کے خلاف رکھا گیا تھا۔ اس احتجاج کی قیادت علی امین گنڈا پور نے کی تھی اور کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ علی امین گنڈا پور کا قافلہ 5 اکتوبر کی سہ پہر اسلام آباد پہنچا تھا۔
اس وقت ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم پاکستان کے دورے پر تھے اور 4 اکتوبر کو ان کی واپسی کے دن اسلام آباد میں احتجاج کا میدان سجایا گیا تھا۔
آئی جی پی آفس کی جانب سے جاری کردہ نقصانات کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے دوران مجموعی طور پر تقریباً 24 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ رپورٹ کے مطابق دوران احتجاج اسلام آباد پولیس کا ایک اہلکار شہید اور 31 زخمی ہوئے تھے۔
28 ستمبر
پی ٹی آئی کی جانب سے 28 ستمبر کے احتجاج کے لیے راولپنڈی کے لیاقت باغ کو چنا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 28 ستمبر کو دن بھر پولیس اور کارکنان کے درمیان تصادم جاری رہا اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور شیلنگ کی جاتی رہی۔
پولیس اور کارکنان کے درمیان شدید تصادم کے بعد علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد 26 نمبر چونگی سے پشاور واپس جانے اور احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اس موقع پر بھی جڑواں شہروں کو ملانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ میٹرو بس سروس بھی جزوی طور پر بند تھی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے بیشتر مقامات کو بند کیا گیا تھا۔ 26 نمبر چونگی پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
مجموعی طور پر سال 2024 میں انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد کو تقریباً 4 بار بند کیا گیا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2024 کے بعد بھی ملک گیر احتجاج کی کال دی۔ کچھ ریلیاں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے نکالی گئیں۔ جس سے اسلام آباد میں ٹریفک کی آمدورفت میں رکاوٹ دیکھی گئی لیکن اسلام آباد کو انتظامیہ کی جانب سے بند نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد میں بندشوں کی اہم وجوہات کیا تھیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج: پی ٹی آئی کے مختلف مطالبات کے سلسلے میں کیے جانے والے احتجاجوں کی وجہ سے اسلام آباد میں بار بار رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
سیاسی عدم استحکام: ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش نے بھی اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کو متاثر کیا اور شہر کو بند کرنے کا باعث بنی۔
اسلام آباد میں بندشوں کے اثرات
روزمرہ زندگی میں مشکلات: شہریوں کو اپنی ملازمتوں پر جانے، بچوں کو اسکول لے جانے اور دیگر روزمرہ کے کاموں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اقتصادی نقصان: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق اپوزیشن کی احتجاج کی کال سے معاشی طور پر یومیہ 190 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے۔
سماجی عدم اطمینان: اسلام آباد کی بندشوں کی وجہ سے شہریوں میں شدید بے چینی اور عدم اطمینان پایا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *