کیا مسلمان کرسٹوفر کولمبس سے پہلے امریکا پہنچ گئے تھے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مسلمانوں کی امریکا آمد کے حوالے سے متعدد تحقیقی شواہد اور تاریخی حوالہ جات موجود ہیں، جنہوں نے اس نظریے کو تقویت دی ہے کہ مسلمان کولمبس سے قبل براعظم امریکا تک پہنچ چکے تھے۔ یہ شواہد جغرافیائی، لسانی، آثارِ قدیمہ اور تاریخی کتب کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں ان شواہد کو ترتیب وار بیان کیا گیا ہے تاکہ ان کے ثقافتی اور تہذیبی اثرات کو سمجھا جا سکے۔
ابو بکر دوم اور مالی سلطنت
مالی سلطنت کے بادشاہ ابو بکر دوم کا ذکر المؤرخ شہاب الدين العمری کی کتاب( مسالک الابصار فی ممالیک الامصارقاہرہ، مصر) میں موجود ہے۔ 1312 عیسوی میں ابو بکر دوم نے اپنا تخت چھوڑ کر بحرِ اوقیانوس پار کرنے کے لیے ایک مہم روانہ کی۔
العمری لکھتے ہیں کہ ابو بکر دوم کے بحری جہازوں کی تعداد 2000 سے زائد تھی۔ اس مہم کا مقصد نئے زمینی خطوں کی دریافت اورعالمی روابط کواستوار کرنا تھا۔
اسلامی علوم اور تہذیبوں کے باہمی روابط کے عالمی شہرت یافتہ ماہرمحقق یوسف مروح (Youssef Mroueh) نے اپنی کتاب ’امریکا میں کولمبیا سے پہلے کے مسلمان‘ (Pre-Columbian Muslims in the Americas) میں اس واقعے کو مضبوط دلیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔
آثارِ قدیمہ کے شواہد
براعظم جنوبی امریکا میں برازیل، میکسیکو، اور نیومیکسیکو جیسے علاقوں میں ماہرین آثارِ قدیمہ نے اسلامی طرز کے سکے، مساجد سے مشابہ عمارتی باقیات اور ایسی چٹانیں دریافت کی ہیں جن پر عربی رسم الخطاط میں عبارات کندہ ہیں۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرلسانیات و آثارِقدیمہ اورمحقق ڈاکٹر بری بیل نے اپنی کتاب Islamic Artifacts in Pre-Columbian America میں ان دریافتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ برازیل کے علاقے باہیا (Bahia) میں عربی رسم الخط میں کندہ چٹانیں خاص طور پراہم ہیں، جو افریقی اور اسلامی روابط کی تصدیق کرتی ہیں۔
نیومیکسیکومیں دریافت ہونے والے آثرِقدیمہ میں عربی رسم الخط پر مشتمل ایسے نقوش موجود ہیں جواس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان براعظم امریکا میں موجود تھے۔ ان پتھروں پر اللہ کا نام اور دیگر عربی عبارات واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
میکسیکو کے اولمیک آثارقدیمہ Antiquities of Mexico) (Olmec میں پائے جانے والے نقوش اورکھنڈرات بھی افریقی اور اسلامی ثقافت کےاثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف یہاں پہنچے بلکہ خطے میں اپنے فنون اور علوم کے اثرات بھی ثبت کیے۔
کرسٹوفر کولمبس کے تحریری اعترافات کا تاریخی ثبوت
1492 عیسوی میں امریکا پہنچنے والے جہازراں کرسٹوفر کولمبس کی ڈائری The Log of Christopher Columbus، میڈرڈ، اسپین کے اسپینس رائل آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ اس ڈائری میں کولمبس نے متعدد مقامات پر مسلمانوں اور ان کےثقافتی اثرات کا ذکر کیا۔
کرسٹوفر کولمبس نے بحری سفر کے دوران ان قصبات کی نشاندہی کی جہاں مقامی باشندوں کی ثقافت میں افریقی اور اسلامی روایات کی جھلکیاں نظر آئیں۔ کولمبس کے بیان کے مطابق اس نے ایسے سکے دیکھے جن پر افریقی طرز کے نقوش تھے، اور یہ بھی نوٹ کیا کہ کیریبین کے جزائر میں کچھ مقامی لوگ کپڑوں اور زیورات میں مشرقی طرز کی تقلید کرتے تھے۔
اس کے علاوہ، کولمبس نے مغربی افریقہ سے آنے والے بحری قافلوں کا ذکر کیا، جو مقامی قبائل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے تھے۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹربری بیل کی تحقیقات اورایوان وان سرٹیما کی کتابThey Came Before Columbus سےبھی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ایوان وان سرٹیما (Ivan Van Sertima) ایک گویانی( گیانا،افریقہ) نژاد امریکی ماہرِ بشریات، محقق، مصنف اور تاریخ دان تھے۔
لسانی شواہد
امریکا کے قدیم قبائل کی زبانوں پر تحقیق کرنے والے ایوان وان سرٹیما اور ڈاکٹر علی الامین مظوری نے اپنی تحقیقات میں مقامی امریکی زبانوں میں ’اللہ‘، ’سلام‘ اور ’مسکین‘ کے سے الفاظ کی موجودگی نشان دہی کی ہے۔ یہ لسانی مماثلتیں مسلمانوں کی ممکنہ موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ہیٹی اور کیوبا کے مقامی قبائل کی زبانوں میں عربی اور افریقی زبانوں کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان زبانوں کے اثرات مقامی قبائل کی عام بول چال میں رچے بسے ہیں۔ ان زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور محاورے یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلمان کے اس خطے میں تجارتی اور ثقافتی روابط موجود تھے۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر علی الامین مظوری نے افریقی اور اسلامی تاریخ پر متعدد کتب لکھیں، ان کا براہِ راست امریکہ کی دریافت اور مسلمانوں کے کولمبس سے پہلے امریکہ پہنچنے پر تحقیقی کام ،ان کی تحقیق کا خاص موضوع ہے۔ اس حوالے سے ان کی تحقیقی کتاب ’ The Africans: A Triple Heritage ‘ بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکی ہے۔
ڈاکٹرعلی الامین مظوری کی کتاب اوربی بی سی کی ایک دستاویزی فلم میں یہ واضح کیا ہے کہ اسلامی تاریخ نے نہ صرف افریقہ بلکہ امریکا سمیت دنیا کے دیگر خطوں پربھی اپنےخوشگواراثرات مرتب کیے ہیں۔
محمد الادریسی کا علمی تحقیقی اور سائنسی کارنامہ
الادریسی ایک مشہور مسلمان جغرافیہ دان،ماہرنقشہ ساز اورمحقق تھے۔ ان کا سب سے مشہور کام ’ Tabula Rogeriana ‘ یعنی روجر کا نقشہ ہے، جو 1154عیسوی میں جزیرہ سسلی (اٹلی) کے بادشاہ راجر دوم کے حکم پر مکمل کیا گیا۔ اس نقشے میں نامعلوم دنیا (امریکا) کو دکھایا گیا ہے۔
تہذیبی اثرات:
مسلمانوں نے امریکی معاشرت پر زراعت، فلکیات، اور طب جیسے شعبوں میں گہرے اثرات ڈالے۔ میکسیکو اور کیوبا میں اسلامی طرز کی زرعی تکنیکوں کے شواہد موجود ہیں۔ معروف ترک نژاد جرمن محقق فواد سیزگین نے اپنی کتاب ’عربوں کی اسلامی سائنسی کی تاریخ ‘ میں ان تکنیکوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
اگر فلکیات کی بات کریں تو مقامی امریکی قبائل کے ستاروں کے مطالعے کے طریقے اسلامی فلکیات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مقامی امریکی دیہاتوں میں آبپاشی کے نظام اور زراعت کے طریقے اسلامی دنیا سے متاثر نظر آتے ہیں۔ کھجور، گنا، اور دیگر فصلوں کی کاشت کے طریقے انہی تکنیکوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو عرب دنیا میں عام تھیں۔ یہ نظام نہ صرف زرعی ترقی کی علامت ہیں بلکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کے علم اور مہارت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ شواہد واضح کرتے ہیں کہ مسلمان کولمبس سے پہلے اس نامعلوم براعظم تک پہنچ گئے تھے، جسے آج دنیا ’امریکا‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس خطے میں اسلامی ثقافت کے آثار اور تاریخی حوالہ جات اس نظریے کومزید مضبوط بناتے ہیں۔ یہ دریافت اسلامی تہذیب وتمدن کے عالمی اثرات اور انسانیت کے مشترکہ ورثے کو اجاگر کرتی ہے۔