بہتر انٹرنیٹ سروس: کیا ’2 افریقہ کیبل‘ شارک سے محفوظ رہے گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ملک میں انٹرنیٹ سروس سے جڑے مسائل دور کرنے کے لیے حکومت نے ’2 افریقہ کیبل‘ پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔
حکومت نے دنیا کے سب سے بڑے سب میرین انٹرنیٹ کیبل نظام ’2 افریقہ‘ کی لینڈنگ ہاکس بے کیماڑی ٹاؤن کراچی میں قائم کردی ہے، جس سے ملک میں انٹرنیٹ سروس کی رفتار میں بہتری آنے کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ یہ منصوبہ 45,000 کلومیٹر طویل زیرِ سمندر کیبل نیٹ ورک پر مشتمل ہے اور 33 ممالک میں 46 لینڈنگ اسٹیشنز کو جوڑتا ہے اور پاکستان میں اس پروجیکٹ کے آپریشن کی ذمہ داری ٹرانس ورلڈ ایسوسی ایٹس کو سونپی گئی ہے۔
جہاں ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ یہ کیبل پاکستان میں سست رفتار انٹرنیٹ کے مسئل کو حل کر سکتی ہے وہیں دوسری جانب یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کیبل بھی باقی کیبلز کی طرح شارک کی نذر ہوتی رہے گی یا پھر شارک سے محفوظ رہے گی؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے وی نیوز نے ماہرین سے گفتگو کرکے جاننے کی کوشش کی کہ یہ کیبل باقی کیبلز کے مقابلے میں کتنی بہتر ثابت ہوگی؟
پاکستان آئی ٹی ایسوسی ایشن کے صدر سجاد مصطفٰی کے مطابق پاکستان میں متعارف کی گئی 3 سے 4 کیبلز کا ذکر حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے، جن میں ایک ٹرانس ورلڈ کی بھی کیبل ہے، جو ابھی تک لائیو نہیں ہوسکی ہے۔
’انٹرنیٹ کو بہتر بنانے کے لیے 5 جی کے لائسنس کی نیلامی کا عمل فوراً درکار ہے، اس کے علاوہ فائیبریشن آف نیٹ ورک چاہیے اور پھر یقیناً یہ کیبلز بھی چاہییں، کیونکہ جب یہ کیبلز آئیں گی تو ہماری دنیا سے کنیکٹیویٹی زیادہ ہو جائے گی۔‘
سجاد مصطفٰی کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے اس سے انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے غیر یقینی کم ہوگی، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ انفرا اسٹرکچر میں کوئی قدغن یا کوئی ایسی چیز نہ نصب ہو جو انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کر دے۔
’اس لیے کیبلز کی مینجمنٹ پر بھی نظر رکھنی ہے تاکہ وہ بھی فعال رہیں، جہاں تک شارک کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ یہ بھی فزیکل کیبل ہے جو کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے یا اسے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے، اس کی تو کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔‘
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ترجمان زیب النسا کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کو بین الاقوامی رابطوں کو مزید بہتر بنانے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے، جس میں ٹرانس ورلڈ ایسوسی ایٹس یعنی ٹی ڈبلیو اے پاکستان کے لیے افریقہ 2 سب میرین کیبل کے لینڈنگ پارٹنر کی معاونت شامل ہے۔
’2افریقہ دنیا کے سب سے بڑے سب میرین کیبل سسٹمز میں سے ایک ہے، جو 45,000 کلومیٹر طویل ہے اور افریقہ، یورپ اور مشرق وسطی کے 46 مقامات کو آپس میں جوڑتا ہے۔ ایس ڈی ایم آئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے یہ 180 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔‘
پاکستان میں 2 افریقہ کیبل کے فعال ہونے کا امکان رواں برس کی چوتھی سہ ماہی تک ہے، 8 شراکت داروں پر مشتمل ایک عالمی کنسورشیم ، بشمول میٹا اور ووڈا فون، اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق منصوبے کے پہلے مرحلے کے دوران پری لے شور اینڈ کی تنصیب کا آغاز یکم دسمبر 2024 کو ہوا جب کیبل کراچی کے ہاکس بے ساحل پر اتری۔ ’دوسرے مرحلے میں ، گہرے سمندر میں کیبل بچھانے کا عمل رواں برس یکم اپریل سے شروع ہوگا۔‘
واضح رہے کہ شارک سے متعلق کیے گئے سوال کا کوئی جواب ترجمان پی ٹی اے نے نہیں دیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے پاکستان کے بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن کے بنیادی ڈھانچے میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ رابطے کا نظام مزید مضبوط ہوگا۔
یاد رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ شارک سب میرین کیبل کو نہیں کاٹ سکتی، اگر آپ کسی اور چیز کو شارک کہتے ہیں تو وہ الگ بات ہے۔
آئی ٹی ماہر محمد عمر اسلم نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا بہت ہی آناً فاناً ہوتا ہے کہ شارک کے کاٹنے سے سب میرین کیبلز میں خرابی آئے، سب میرین کیبلز میں کسی بھی مسئلے کی سمندری طوفان، زلزلے، یا کوئی انسانی غفلت سمیت مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔
عمر اسلم کے مطابق عوام کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی ہےکہ جب بھی انٹرنیٹ کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو شارک کو موردالزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ’سب میرین کیبلز میں رونما خرابی چند گھنٹوں میں دور ہوجاتی ہے لیکن پاکستان میں شارک کو مورد الزام ٹھہرا کر ہفتوں معاملہ خراب رہتا ہے۔‘
عمر اسلم جیسے آئی ٹی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کیبلز انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے بہترین ثابت ہوں گی لیکن یہ کیبلز نہیں بلکہ ملکی مسائل ہیں جو انٹرنیٹ سروس کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔
’جب ہر چھوٹے بڑے واقع پر حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بند کر دیا جائے یا ارادتاً انٹرنیٹ کی رفتار میں خلل پیدا کیا جائے تو چاہیے کتنی بھی کیبلز آجائیں فرق نہیں پڑتا، انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ حکومت کو دیگر امور پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *