بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے پاکستانی یا کوئی اور؟ برطانوی پولیس نے ایلون مسک کو آئینہ دکھا دیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)برطانیہ کی نیشنل پولیس چیفس کونسل (این پی سی سی) نے برطانیہ میں بچوں کے جنسی استحصال میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانی نژاد شہریوں کے ملوث ہونے سے متعلق ایلون مسک کے الزامات پر حقائق آشکار کردیے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، نیشنل پولیس چیفس کونسل کے ڈائریکٹر رچرڈ فیوکس کی جانب سے شیئر کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق، 2024 میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث 85 فیصد افراد سفید فام تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنسی استحصال کرنے والوں کا تعلق کسی خاص مذہبی یا نسلی گروہ سے نہیں ہے۔
ڈائریکٹر رچرڈ فیوکس کا کہنا تھا کہ خاص مذہب یا قومیت کے افراد کے جنسی جرائم میں ملوث ہونے سے متعلق الزامات سامنے آنے کے بعد برطانیہ میں پہلی بار اس بنیاد پر اعدادوشمار جمع کیے گئے جو اب نئے پولیس افسران کی ٹریننگ میں استعمال کیے جائیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مرتب کیے گئے اعدادوشمار میں ابھی 2024 کی چوتھی سہ ماہی کے دوران ہونے والے جرائم کا ڈیٹا شامل نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’گرومنگ گینگز‘ کے مسئلے پر حالیہ دنوں میں زیادہ توجہ دی گئی جس کی وجہ سے بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے دیگر پہلوؤں جیسا کہ خاندان کے افراد کے ملوث ہونے کو فوکس نہ کیا جاسکا۔
اس موقع پر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی جرائم کی تحقیقات کرنے والے چیف کانسٹیبل بیکی رگز نے کہا کہ بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز میں تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کے افراد سمیت تمام خطرات سے نمٹنا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی گرومنگ گینگز کے بارے میں ہونے والی حالیہ بحث نے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق واقعات کو ایک خاص سطح تک محدود کردیا ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی پولیس چیف کونسل کے افسران کے یہ بیانات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ کے مالک ایلون مسک کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے بعد سامنے آئے ہیں۔
قبل ازیں، ایلون مسک نے ’ایکس‘ پر متعدد پوسٹس میں برطانوی حکومت اور وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو ’گرومنگ گینگز‘ کے معاملے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ برطانیہ میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث بیشتر افراد مسلمان اور پاکستانی ہیں۔