کیا عمران خان 190پاؤنڈ کیس سے نکل پائیں گے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایک 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آچکا ہے جس کے تحت بانی پی ٹی آئی کو 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے اور 10لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال سزا اور 5 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس جسے القادر ٹرسٹ کیس بھی کہا جاتا ہے، پہلا کیس تھا جس میں 9مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا اور اور بعد ازاں 27 فروری 2024 کو ان پر فردِجرم عائد کی گئی تھی۔
یہ فیصلہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جسٹس ناصر جاوید رانا کی سربراہی میں سنایا گیا ہے جو کہ 18 دسمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ فیصلے کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے علاؤہ تحریک انصاف کے دیگر کئی اہم رہنما بھی موجود تھے۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد بشری بی بی کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو کہ ضمانت پر رِہا تھیں۔ جبکہ فیصلے کے مطابق القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں دے دیا گیا۔
آخر یہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس ہے کیا؟
پاکستان کے مرکزی احتسابی ادارے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو کے تحت چلنے والا یہ کیسں دراصل برطانیہ سے موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ کے بارے میں ہے جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کو خفیہ طور پر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منگوایا گیا۔
نیب ریفرنس میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ رقم بانی پی ٹی آئی کے زیر نگرانی موصول کی گئی جو کہ بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض حسین کی امانت تھی جسے جرمانے کی مد میں ایڈجسٹ کیا گیا اور اس فیور کے عوض عمران خان نے مالی فائدہ حاصل کیا۔
نیب حکام کے دعوے کے مطابق اس تصفیے کے بدلے میں القادر ٹرسٹ کی 460 کنال سے زیادہ اراضی عطیے کے طور پر حاصل کی گئی۔
اس کیس میں عمران خان اور بشری بی بی سمیت 8افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں بیرسٹر شہزاد اکبر، زلفی بخاری، ملک ریاض اور ان کے صاحب زادے علی ریاض، فرح گوگی اور ڈاکٹر بابر اعوان شامل ہیں۔ ان میں سے 5ملزمان کو عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیدیا گیا تھا اور ان کے دائمی وارنٹ بھی جاری کیے گئے تھے۔
اس کیس میں عمران خان پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے کہ اکتوبر 2019 میں انہوں نے ایک خفیہ میٹنگ کی، جس میں ایک برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے ایک خُفیہ معاہدے پر کابینہ کی منظوری لی۔ جبکہ اس سے متعلق ان کی کابینہ میں سے بھی کسی کو کوئی معلومات نہ تھی اور نہ ہی کابینہ کے اصولوں کے مطابق اس معاملے کو پہلے سرکولیٹ کیا گیا۔ الزامات میں یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے میں کابینہ کے ارکان کو پریشرائز کیا گیا تھا اور یہ معاہدہ ایک بند لفافے میں طے پایا۔
نیب حکام کا ریفرینس میں یہ بھی دعوٰی تھا کہ یہ معاملہ کافی پہلے سے زیرِ غور تھا یعنی اس معاہدے کے متعلق این سی اے اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے مابین بات چیت جاری تھی اور یہ منظوری معاہدہ طے پا جانے کے کافی بعد لی گئی اور اسے خفیہ رکھنے کی شق بھی درج کی گئی جبکہ ایسے کسی معاہدے کو خفیہ رکھنے کا کوئی اصول یا قانون موجود نہیں ہے۔
نیب حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس معاہدے کے کابینہ میں طے پانے سے پہلے ہی رقم کا کچھ حصہ وصول کرلیا گیا تھا جو کہ وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موصول ہوا تھا۔
ریفرینس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے القادر ٹرسٹ کی زمین کوئی ڈونیشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایڈجسٹمنٹ ہے۔ وہ رقم جو برطانیہ سے آئی وہ بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذمے سپریم کورٹ کو واجب الادا جرمانے میں ایڈجسٹ کی گئی۔ اور اس کے عوض ملک ریاض نے القادر ٹرسٹ کے لیے سوہاوہ ضلع جہلم میں زمین خرید کرعطیے کے طور پر دی۔
الزام کے مطابق یہ معاہدہ ملک ریاض اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان طے پایا۔ کیونکہ رقم کے اس سارے معاملے کے دوران ہی عمران خان نے القادر ٹرسٹ کا اعلان کیا تھا۔ اور خود عمران خان اور بشری بی بی اس یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں۔ ان کے علاؤہ زلفی بخاری اور ڈاکٹر بابر اعوان بھی اس پراجیکٹ میں سربراہان کے طور پر شامل تھے جو بعد میں اس سے الگ ہو گئے۔
اس کے علاؤہ بشریٰ بی بی پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی دیرینہ دوست فرح گوگی کے ذریعے 400کنال اراضی حاصل کی۔ جبکہ فرح گوگی کے نام بھی 240کنال اراضی منتقل کی گئی اور زلفی بخاری کے نام بھی ایسی ہی کوئی منتقلی کی گئی تھی۔
پی ٹی آئی قیادت اور خود بانی پی ٹی آئی نے بھی ان الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ رقم حکومت پاکستان کی نہیں تھی اور تین دسمبر کو کابینہ کا جو فیصلہ ہوا اس سے اس منی ٹرانسفر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے ایک سیاسی مقدمہ قرار دیا تھا۔ جبکہ موجودہ حکومت کی جانب سے اس مقدمے کو ‘میگا کرپشن اسکینڈل ‘ کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ کی ساری گیم برطانیہ سے پیسہ آنے پر ہی شروع ہوئی تھی۔
کیا یہ ایک فیئر ٹرائل تھا ؟
کئی ہفتے مؤخر ہونے کے بعد سنائے جانے والے اس فیصلے کو فری اور فیئر ٹرائل کہا تو جا رہا ہے مگر سمجھ کوئی نہیں رہا۔ بلکہ اس کرپشن کے الزام کو ن لیگ پہ لگے کرپشن کے بے شمار داغوں کے جواب میں ایک انتقامی کارروائی کہا جا رہا ہے۔
دوسری طرف جسٹس ناصر جاوید رانا جنہوں نے یہ فیصلہ سنایا ان کی اپنی کریڈیبیلیٹی پہ بھی سوالیہ نشان ہیں۔ انہیں 2004 میں عدالتی کارروائیوں اور پریکٹس سے خارج کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں جوڈیشل پریکٹس کے لیے ان فٹ قرار دیا گیا تھا۔
لہذا سوال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ تعینات کیوں کیا گیا اور ان سے ایک اہم فیصلہ کیسے کروایا گیا۔ اور پھر اس پہ فری اور فیئر ٹرائل کا دعویٰ کرنا بھی ایک مضحکہ خیز با ت ہے۔ جبکہ واقعے کے اصلی کردار ملک ریاض کے خلاف کوئی کارروائی تاحال نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی امید ہے۔
پی ٹی آئی اور عوامی ردعمل:
اطلاعات کے مطابق اس فیصلے کے بارے میں بانی پی ٹی آئی کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا اور ان سے بات چیت بھی جاری تھی اور یہ خبر اڈیالا جیل سے باہر بھی آ چکی تھی۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اور صحافیوں تک کو بھی یہ فیصلہ پہلے سے معلوم تھا جس کا اظہار بھی وہ اپنے ٹوئٹس میں کر چکے تھے۔ لہذا اس خبر پہ کوئی حیرانی کا اظہار کسی بھی جانب سے نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے اس فیصلے اور اس مقدمے کو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے کہ اس سے عمران خان کو نہ تو کوئی فائدہ حاصل ہوا ہے نا ہی ریاست کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔ اور فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت پر عزم ہے۔ دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات بھی شروع ہو چکے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے کافی تفصیلی ملاقات اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔ جبکہ ہائیکورٹ میں اپیل کے لیے بھی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔
فیصلے کے بعد سے عوام کا پرزور احتجاج بھی سامنے آ رہا ہے۔ اس فیصلے نے عوام کی نظر میں عدلیہ کی ساکھ کو مزید خراب کر دیا ہے۔ جبکہ عوام کا یہ بھی ردعمل سامنے آرہا ہے کہ القادر یونیورسٹی جو کہ سیرتِ نبی کی تعلیم کے لیے بنائی گئی اور یہ ایک مذہبی مقصد تھا جس کے خلاف سازش کرکے اسے ایک جرم ثابت کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی ایک پاپولر جماعت ہے اور عوام کا ردِعمل بھی ایک یقینی بات ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کو کئی ہفتوں تک محفوظ بھی اسلیے رکھا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کیمپین اور عوامی ردعمل کو قابو کیا جاسکے اور بانی پی ٹی آئی سے بھی اس کی درخواست کی گئی کہ جہاں تک ہوسکے، حالات کو قابو میں رکھا جاسکے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی کئی مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل کیا گیا تھا جن میں کچھ مقدمات میں وہ بری ہو گئے اور کچھ میں ان کی سزا معطل ہو گئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی یہ سزا برقرار رہے گی یا یہ سزا بھی پچھلے مقدمات کی طرح معطل ہو جائے گی؟ یا پھر ان کا آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔
حالات اور مذاکرات تو اس جانب ہی اشارہ کر رہے ہیں کہ اس فیصلے پہ جلد ہی کوئی یو ٹرن آ جائے گا ۔ یا تو عارضی طور پہ عمران خان کو ضمانت پر رہائی مل جائے گی یا پھر اس فیصلے کو بھی پچھلے کئی فیصلوں کی طرح معطل کر دیا جائے گا۔
اس سے آگے اب پی ٹی آئی کے پاس اسلام آباد ہائیکورٹ کا راستہ تو موجود ہے۔ اور اپیل بھی ضرور کی جائے گی۔ مگر یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سزا کی معطلی یا پھر ضمانت میں کتنا وقت لگ سکتا ہے، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیا رنگ لائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *