کوئی کیس چل رہا ہو تو اسے بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا،عدالتی معاون کے کیس میں دلائل
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)بینچزکے اختیارات کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس میں عدالتی معاون وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ کوئی کیس چل رہا ہو تو اسے بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں بینچزکے اختیارات کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،وکیل شاہد جمیل نے کہاکہ پشاورمیں بھی ایسے بینچ تبدیل ہوا تھا تو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹ لکھا تھا،سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے،یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے،درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے معزز جج کو بھی تبدیل کردیا جاتا ہے،کوئی کیس چل رہا ہو تو اسے بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ مطلب کہ اگر کوئی کیس شروع ہو گیا ہو تو پھر واپسی نہیں ہے،وکیل شاہد جمیل نے کہاکہ کہیں سوال اٹھے گا تو کیس واپس لیا بھی جا سکتا ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ سارے کیسزپہلے آئینی بنچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں،یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا ہم توہین عدالت کا کیس سنتے ہوئے فول کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟
وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ کمیٹی کا فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے،کمیٹی اختیار پر عدالت فل کورٹ آرڈر کرسکتی ہے،آئینی بینچ سپریم کورٹ کا صرف ایک سیکشن ہے،سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہئے،تین رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہئے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنا ہیں،میری رائے ہے کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی،کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے،کہا گیا کہ پہلے کیس غلطی سے موجودہ ریگولر بینچ میں لگ گیا،اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر جوڈیشل آرڈر لاگو ہوچکا،جوڈیشل آرڈر لوگو ہو چکا جس کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے،یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے ۔