گورنر خیبرپختونخوا جامعات کے اختیارات سے بھی محروم، اب ان کے پاس کیا کچھ بچا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گونر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے گورنر کو بے اختیار کرنے کے لیے جامعات کے چانسلر کا عہدہ وزیراعلیٰ کو دے دیا ہے۔
اس حوالے سے صوبائی اسمبلی نے پچھلے دنوں خیبرپختونخوا یونیورسٹی ٹرانسفر بل 2024 پاس کرنے کے بعد منظوری کے لیے گورنر کو بھجوایا، جسے گورنر نے اعتراض کے ساتھ بل واپس کردیا۔ تاہم، رواں ہفتے اسمبلی سیکرٹریٹ نے خیبرپختونخوا یونیورسٹی ریفارمز بل 2024 کو باقاعدہ قانون بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس کے تحت اب خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کے چانسلر وزیراعلیٰ ہوں گے۔ اس سے قبل گورنر تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر تھے۔
ترمیم شدہ قانون کے تحت، وزیراعلیٰ کو اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اکیڈمک سرچ کمیٹی کے تجویز کردہ 3 ناموں میں سے ایک کا بطور وائس چانسلر تقرر کرسکتے ہیں۔
گورنر شکایت لے کر ایوان صدر پہنچ گئے
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے نئی قانون سازی پر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم، گورنر ہاؤس میں تعنیات حکام کے مطابق، گورنر فیصل کریم کنڈی سخت ناراض ہیں اور وہ شکایت لے کر صدر آصف علی زرداری کے پاس بھی گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی جس میں پارٹی اور سیاسی امور کے علاوہ گورنر کے اختیارات پر بھی بات ہوئی، فیصل کریم نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے یونیورسٹیز سے متعلق گورنر کے اختیارات واپس لینے کا معاملہ بھی صدر پاکستان کے نوٹس میں لائے۔
’علی امین گنڈاپور نے گورنر کو گورنر ہاؤس تک محدود کردیا ہے‘
ماضی کے دوست، رشتہ دار اور ایک ہی ضلع سے تعلق رکھنے والے علی امین گنڈاپور اور فیصل کریم جب صوبے میں اہم عہدوں پر آئے تو ان کے درمیان سیاسی اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور گورنر فیصل کریم کنڈی سے ملنا اور ان کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے، ان کی یہی کوشش ہے کہ گورنر کو حکومتی معمولات سے ہر ممکن دور رکھا جاسکے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کوشش ہے کہ فیصل کریم کنڈی کو گورنر ہاؤس تک محدود کیا جائے، وزیراعلیٰ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب میں بھی ہوئے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ علی امین صوبے کے آئینی سربراہ کو سرکاری ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرنے نہیں دے رہے، دوسری جانب صوبے کے چیف سیکریٹری، آئی جی اور وزرا کو سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اب کیا گورنر صرف شادی بیاہ میں شرکت اور ملاقاتیں کریں گے؟
فاٹا انضمام سے قبل صوبے میں گورنر بااختیار ہوتے تھے۔ قبائلی امور کے تمام اختیارات ان کے پاس ہوتے تھے۔ تاہم، انضمام کے بعد گورنر کے پاس اب صرف سرکاری جامعات سے متعلق اختیارات رہ گئے تھے اور اب وہ بھی وزیراعلیٰ نے ان سے چھین لیے ہیں۔ گورنر کے قریبی حلقوں کے مطابق، گورنر کے ہاں ملاقات اور شکایات لے کر آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن ان کی شکایات کے ازالے کے لیے سیاسی گورنر کے پاس کوئی اختیارات نہیں۔ ذرائع کے مطابق، گورنر کو زیادہ شکایات صوبائی محکموں کے حوالے سے آتی ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے وہ بے بس نظر آتے ہیں۔
’گورنر صاحب ویسے تو بہت مصروف رہتے ہیں، وہ شادی بیاہ، پرائیوٹ ایونٹس اور افتتاحی تقاریب میں جاتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ وفود سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں‘۔
گورنر کے قریبی حلقوں کے مطابق، ’گورنر ورکرز کے کام نہیں کرسکتے، وہ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوکر انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اب ان کے اختیار میں یہی ہے‘۔
تمام صوبوں کے گورنرز نے کیا منصوبہ بنایا ہے؟
اختیارات کے حوالے سے ملک کے تمام صوبوں کے گورنرز فکرمند ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اختیارات نہ ہونے سے انھیں سیاسی طور پر نقصان ہورہا ہے جبکہ پارٹی ورکرز بھی ناراض ہیں۔ اختیارات کے لیے فکر مند گورنرز چند دن قبل کراچی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں سر جوڑ کر بیٹھے اور اختیارات کے لیے صدر پاکستان کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کانفرنس کے دوران سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے پی پی پی کے گورنرز سے شکایت کی کہ ان کی صوبائی حکومت بھی اختیارات نہیں دے رہی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اختیارات کے حوالے سے گورنرز کانفرنس لاہور اور پشاور میں بھی ہوگی جس میں ایک حتمی مسودہ تیار کیا جائے گا اور صدر پاکستان کو پیش کیا جائے گا۔