کوئٹہ کا گرین بس منصوبہ:سفری سہولت بھی ماحول کا تحفظ بھی
تحریر: مطیع اللہ مطیع
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی گئی اس کائنات میں زمین کو بہت سے امتیازات حاصل ہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو سرسبز وشاداب ،جنگلات ،قدآور درختوں ،لہلاتی فصلوں ،کھیتوں ،آبشاروں، دریاﺅں، سمندروں، پہاڑوں اور دیگرقدرتی وسائل سے مالامال کیا لیکن حضرت انسان نے اپنی لاعلمی اور غفلت سے زمین کا قدرتی حسن داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی نتیجہ یہ نکلا کہ آج اکیسویں صدی میں جب ایک طرف انسان دیگر سیاروں پرزندگی کے آثار ڈھونڈنے کے چکر میں ہے وہاں زمین پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی اورموسمیاتی مسائل گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جارہے ہیںانسانوں کے پیدا کردہ محرکات سے ماحول آلودگی میں تبدیل ہوتاجارہاہے آلودگی کی کئی اقسام ہیں،جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں منفی کردار ادا کرتی ہیں جن میں فضائی آلودگی،جنگلات کا کٹاﺅ،آبی انواع کا معدوم ہوجانا،آلودگی کے زرعی اجناس پر اثرات ،کوڑے کرکٹ کی آلودگی،شور /صوتی آلودگی،آبی آلودگی کے علاوہ مختلف کیمیکلز کی آلودگی شامل ہے۔فضائی آلودگی کے کئی اسباب ہیں مثلا کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگنا ، صنعتی شعبہ جات میں استعمال ہونے والے مختلف فوسل فیولز(Fossil fuels)، اینٹوں کے بھٹے، چمنیوں اور راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اٹھتا دھواں، ردی، ناکارہ اشیا جلانے، پرانی عمارتیں گرانے اور نئی تعمیرات کا عمل ، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانے کے علاوہ پرانی ماڈل کی گاڑیاں شامل ہیں۔وجوہات بہت ساری ہیں ان وجوہات کو ڈھونڈ کر ہمیں ماحولیاتی تحفظ کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ماحولیاتی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں ابھی سردیاں شروع بھی نہیں ہوئیں کہ ملک کے بہت سارے شہر سموگ کی لپیٹ میںآ گئے ہیں سال دو ہزار بائیس میں پاکستان میں آنے والا تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلی ہی کا نتیجہ تھا اور خود اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتو نیو گوتریس نے یہاں آکر حالات کا جائزہ لینے کے بعد زہریلی گیسو ں کا اخراج کرنے والے ممالک کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوا ہے اور اس عالمگیر مسئلے کو جنم دینے کے محرکات میں پاکستان کا اپنا کردار ایک فیصد بھی نہیں ۔ ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں اگرچہ ماحولیاتی مسائل بہت زیادہ گھمبیر نہیں مگر یہ با ت مستحسن ہے کہ صوبائی حکومت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کے آگے بند باندھنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے سال دو ہزار تئیس میں شروع کیا گیا گرین بس منصوبہ بھی اسی نوعیت کا ایک اہم پراجیکٹ ہے جس کی بدولت نہ صرف صوبائی دارالحکومت کے رہائشیوں کو بہترسفری سہولت میسر آگئی ہے بلکہ دھواں اڑاتی کھٹارہ بسوں سے بھی رفتہ رفتہ ( جوں جوں گرین بس منصوبے میں وسعت آرہی ہے ) شہر کی جان چھوٹ رہی ہے کوئٹہ میں فیکٹریز نہیں لیکن اینٹ کی بھٹیاں، کچرے کی ڈھیر کوآگ لگانے کے علاوہ پرانی ماڈل کی گاڑیاں اور کرش پلانٹس آلودگی کاباعث بن رہی ہے ،کرش پلانٹس شہر سے باہر منتقلی کے بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات موجود ہے اسی طرح پرانی ماڈل کی گاڑیوں کے متبادل گرین بسیں ہیں۔حکومت بلوچستان نے عوام کو آلودگی کاباعث بننے والے بسوں سے چھٹکارا دلانے کیلئے گرین بس منصوبہ شروع کیا جس کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔محکمہ ٹرانسپورٹ کے اعداد وشمار کے مطابق حکومت بلوچستان سال2023ء میں عوام کو شہر میں ماحول دوست سفر کی فراہمی کیلئے گرین بس منصوبہ شروع کیا اور پہلے مرحلے میں 8بسوں کی خریداری کی گئی اور کوئٹہ شہر کے بلیلی چیک پوسٹ سے یونیورسٹی آف بلوچستان تک تقریباََ18.7کلومیٹر تک یہ بسیں عوام کو آرامدہ سفر فراہم کررہی ہے جو ایک پرائیویٹ کمپنی کو دی گئی ہے بسوں کی مرمت کی ذمہ داری مذکورہ کمپنی پر عائد ہوتی ہے۔
مذکورہ بسوں کیلئے ہر500میٹر پر 38بس سٹاپ کا تعین کیاگیاہے ان بسوں میں 4بسیں 8میٹر لمبی جبکہ 4بسیں12میٹر لمبی ہے جن میں 52 اور 96مسافروں کی گنجائش موجود ہے۔مذکورہ بسیں تعین کردہ روٹس پر14گھنٹے سفر کرتی ہے روزانہ ان بسوں کے ذریعے 8ہزار سے زائد مسافر سفرکررہے ہیں ایک بس ایک دن میں1125مسافروں کو سفری سہولت فراہم کررہی ہے ان مسافروں میں 20فیصد مسافر خواتین ہیں۔ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ، بالخصوص سڑکوں پر چلنے والا ٹریفک ہے۔ تو ان نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ٹرانسپورٹ کے ذرائع کو “ڈی کاربنائز” کریں، یعنی ان کے سبب پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں کمی لائیں۔