کیا اس بار کی وکلا تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)26ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو وکلا کی اکثریت متحد نظر آتی ہے جس کا اظہار سپریم کورٹ میں کم و بیش تمام بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے دائر درخواستوں سے کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی پر یہ رائے منقسم ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی اس اقدام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور پیر کے روز تو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اسے درست اقدام قرار دے دیا۔
گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک کنونشن کا انعقاد کیا جس میں ایک قرارداد کی منظوری دی گئی کہ 10 فروری کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کے لیے ملک بھر کے وکلا سپریم کورٹ کی طرف مارچ کریں گے۔ اس تحریک کے روح رواں وکلا کا حامد خان گروپ ہے لیکن کیا یہ گروپ اس بار وکلا کی سنہ 2007 جیسی تحریک کو جنم دے سکتا ہے؟
موجودہ سیٹ اپ پتا نہیں کیوں عدلیہ تباہ کرنے کے درپے ہے، حامد خان ایڈووکیٹ
ینیئر قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ جن کے نام سے وکلا کا یہ دھڑا موسوم ہے شروع دن سے ہی 26 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے نظر آئے ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی پر شب خون قرار دیتے ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف تو تقریباً سارے وکلا متحد ہیں جس کا اظہار ہمیں اس طرح سے نظر آتا ہے کہ زیادہ تر ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں ہمارے امیدواران جیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ججز بنیادی طور پر اسی 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفشریز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 10 فروری کو ہم نے وکلا کو احتجاج کی کال دی ہے کہ سارے سپریم کورٹ کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کریں۔
حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 8 نئے ججز کی تعیناتی کا کوئی جواز ہی نہیں اور ہماری نظر میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اسامی خالی ہوئی تھی جس کو پر کرنے کی ضرورت ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ پہلے آپ 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ سے فیصلہ کروائیں اس کے بعد آپ ججز تعیناتیاں کریں لیکن بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کو اپنے من پسند ججز سے بھرنا چاہتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وکلا کی واضح اکثریت 26 ویں آئینی ترمیم کے مخالف تو نظر آتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم سنہ 2007 جیسی تحریک بنتے نہیں دیکھ رہے تو انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت بہت بڑی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نبرد آزما ہیں اور حکومت میں شامل اور اس کی اتحادی جماعتیں سب ہمارے خلاف ہیں اس لیے ہمیں وہ مومینٹم بنتا نظر نہیں آتا لیکن تحاریک ایک رات میں کامیاب نہیں ہوتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں وکلا کی ایک تحریک سنہ 1974 میں شروع ہو کر سنہ 1977 میں کامیاب ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ موجودہ سیٹ اپ پتا نہیں کیوں جوڈیشری کے ادارے کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ یہ انشاءاللہ کامیاب ہو گی‘۔
یہ سنہ 2007 جیسی تحریک نہ ہی بنے تو اچھا ہے، امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج وکلا کا حق ہے اور آئین و قانون کے ساتھ جس طرح کا کھیل کھیلا گیا ہے اور عدلیہ کی آزادی کو زمیں بوس کیا گیا ہے اس بات کو ایک وکیل ہی سمجھ سکتا ہے عام آدمی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2007 میں تو ایک ڈکٹیٹر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے خلاف تحریک تھی لیکن اب تو عوام کے پیسوں سے تنخواہیں لینے والے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جس طرح سے پارلیمنٹ سے زبردستی 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروائی گئی وہ سب کے سامنے ہے، اس پر شدید ردعمل ہوگا اور ہر دن کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کو بیٹھ کر اس مسئلے کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے مفاد کے لیے ترامیم لانا تو کوئی بات نہیں، عوام کے مفاد کے لیے ترامیم لے کر آئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو اسلام آباد سے کوئی نہیں ملتا جو آپ لاہور سے لے آتے ہیں، اسطرح کی بدنیتی پر مبنی کام نہیں ہونے چاہییں۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ 26 ویں ترمیم ہمارے آئین پر ایک داغ ہے جس کو جلد دھل جانا چاہیے۔
ترمیم آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوئی ہے، احتجاج نہیں بنتا، شاہ خاور ایڈووکیٹ
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بار وکلا کا احتجاج سنہ 2007 کی طرح سے بالکل بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ موجودہ صورتحال پر بار ایسوسی ایشنز کے اندر بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی بار ایسوسی ایشنز نے تو 26 ویں آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم ایک باضابطہ پارلیمانی طریقہ کار کے تحت ہوئی ہے اور اس کے خلاف احتجاج بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *