فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس: آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے جرم کرے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا؟ جج آئینی بینچ
![](https://dailyqudrat.pk/wp-content/uploads/2025/02/18-22.jpg)
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر آج بھی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لیاقت حسین کیس آرٹیکل 10 اے سے پہلے کا ہے جبکہ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی حقوق دستیاب نہ ہوں اور کسی ایکٹ کے ساتھ ملا لیا جائے، تو کیا بنیادی حقوق متاثر ہوں گے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ بولے کہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے اس میں کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے۔
سلمان اکرم راجہ کا مؤقف تھا کہ قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا؟
جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، اگر کوئی پنجاب میں گھر پر پتنگ اڑاتا ہے تو مقدمہ ملٹری کورٹ میں نہیں جائے گا، اس پر بھی سویلین والا قانون لاگو ہو گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اس کیس میں ٹو ون ڈی ون کی پروویژن کیسے ہوئی، سلمان اکرم راجہ بولے کہ اس کیس میں دو مسئلے ہیں، ایک آرٹیکل 175 کا بھی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گھریلو مسئلہ ہے اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے۔ سلمان اکرم راجہ بولے کہ تو کیا اسے آرٹیکل 3 میں ڈال کر ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا، لیاقت علی کیس میں بھی یہی یوا وہاں بھی آرٹیکل 3 کو شامل کیا گیا۔
سلمان اکرم راجہ ایف بی علی نے کہا کہ ٹو ون ڈی ون آرمی ایکٹ کا حصہ بنی ہے، جہاں تک بات رہی بنیادی حقوق کی اس کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا سلمان اکرم راجہ سے دلچسپ مکالمہ
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان کا وکیل سلمان اکرم راجہ سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا، جسٹس نعیم اختر افغان نے تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہے ہیں، بُرا نہ مانیے، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آج کل سیاسی وابستگی بھی ہے۔
سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کیساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔
سلمان اکرم راجہ بولے کہ میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ٹو ون ڈی کی حیثیت کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ ہی کیوں نظر ثانی کرے۔
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو عدالتی نظر ثانی کی جاسکتا ہے، آرٹیکل 8(3) کا استثنا ٹو ون ڈی کے لیے دستیاب نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ٹو ون ڈی کے لیے 1967 میں آرڈیننس لایا گیا، آرڈیننس کی ایک معیاد ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہو گیا ہو۔
جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ کہ میں عدالتی وقفہ کے دوران چیک کرلیتا ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ مارشل لا کے بنے قوانین کو آئین کے آرٹیکل 270 میں تحفظ دیا گیا، اللہ نہ کرے آئین میں آرٹیکل 270 اے کا اضافہ ہو۔
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق پانچ رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ون ڈی ختم کردیا تھا، جس کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ملازمت کی آڑ میں دشمن ملک کیلئے جاسوسی کرے تو ایسے جاسوس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟
جس پر سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ آرمی ایکٹ کے تابع ہونے پر نوکری سے فارغ کردیا جائے گا، سیکشن ٹو ون ڈی کی عدم موجودگی میں ٹرائل کہاں ہوگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم کے خلاف جاسوسی پر تادیبی کاروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہوگا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ کا مؤقف تھا کہ ایسا نہیں کہ ٹو ون ڈی کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کے حوالے کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم راجہ کا مؤقف تھا کہ اس کا ٹرائل اسپیشل انڈر آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگا، جس میں ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا مؤقف تھا کہ میں اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دوں گاے، کلبھوشن کا کیس آپ کے سامنے ہے، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ آئین میں بنیادی حقوق دے کر انگلی کے ایک اشارے سے چھین لیے جائیں۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ریکارڈ چیک کیا ہے، دسمبر 1967 میں پارلیمنٹ کے ذریعے سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کی منظوری دی گئی تھی، سپریم کورٹ ایف بی علی کیس پر نظرثانی کیے بغیر آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا ہم آئین کے یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں؟
سلمان اکرم راجہ بولے کہ سپریم کورٹ فیصلے کا احترام ہے، لیکن عدالت کے لیے ضروری نہیں ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر آئین میں تبدیلی ہو جائے تو کیا ہوگا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پھر تو صورتحال ہی مختلف ہوگی، ایف بی علی کیس فیصلے کے وقت آرٹیکل 175 کی شق 3 نہیں تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے، یکسانیت بھی لانی ہے، تشریح بھی کرنی ہے، پتا نہیں اور کیا کیا کرنا ہے۔
سلمان اکرم راجہ بولے کہ بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ 19ویں صدی والا کورٹ مارشل اب پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے، 2025 میں 1860 والے کورٹ مارشل کی کارروائی کا اطلاق یونیفارمڈ پرسنیل پر بھی نہیں ہو سکتا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر سلمان اکرم راجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پتا نہیں دو سال تک کیا ہوتا رہا، ایک کاغذ تک باہر لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی، ضمانت کا حق بھی حاصل نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے آئینی بینچ کو بتایا کہ برطانیہ میں جج ایڈووکیٹ جنرل کی تعیناتی ہائی کورٹ ججز تعیناتی کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے۔
اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود معروف قانون دان اعتزاز احسن نے بتایا کہ وہ ایف بی علی کیس میں ایاز سپرا اور میجر اشتیاق آصف کے وکیل تھے، جن کا ٹرائل اٹک جیل میں ہوتا تھا۔
اعتزاز احسن کے مطابق ٹرائل کے بعد ریکارڈ جلا دیا جاتا تھا، جب ٹرائل ختم ہوتا ہماری اٹک قلعے سے نکلتے وقت مکمل تلاشی کی جاتی تھی، ایک کاغذ تک لے کر جانے نہیں دیا جاتا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ اس وقت مارشل لا کا دور تھا۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے شکایت کی کہ بطور وکیل انہیں روزانہ اڈیالہ جیل میں ایسا سہنا پڑتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دریافت کیا کہ اتنی تلاشی کیوں کی جاتی ہے؟ سلمان اکرم راجہ بولے کہ میری ٹائی تک کی تلاشی کی جاتی ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ ان سے تو ایک مرتبہ ٹشو پیپر تک لے لیا گیا تھا۔ جس پر جسٹس امین الدین خان بولے کہ آپ دلائل اس کیس تک محدود رکھیں۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔