کیا اب 25 سال پرانا گھر خریدنا آسان ہو گیا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) نے پراپرٹی سیکٹر کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کر دیا ہے، جس میں تعمیر شدہ گھروں کی پراپرٹی ویلیو ایشن میں دوبارہ بڑی کمی کرنے سے پراپرٹی کی خرید و فروخت میں تیزی کا امکان ہے، ایف بی آر نوٹیفکیشن کے مطابق نئے اور پرانے بنگلے اور فلیٹس کی ویلیوایشن میں دوبارہ فرق لاگو کر دیا گیا ہے۔
ڈیفنس اینڈ کلفٹن ایسوسی ایشن آف رئیل اسٹیٹ (ڈیفکلیریا) کے صدر جوہر اقبال کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے دیے گئے ریلیف سے عام شہریوں کو ریلیف ملے گا۔ خاص طور پر وہ لوگ جو پرانا یا نیا گھر خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے ان ’ایس آر اوز‘ میں بہت کچھ درست کرایا گیا ہے، ایف بی آر نے پہلے نئے اور پرانے گھر پر ایک ہی ٹیکس عائد کر دیا تھا، جس پر ہم نے اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو سمجھایا کہ نئے اور پرانے فلیٹ یا گھر کی قیمت ایک ہونے سے شہری پرانا گھر نہیں خرید پائیں گے۔
جوہر اقبال کا کہنا تھا کہ ہر جگہ پراپرٹی کی قیمت الگ ہے جیسے کہ کہیں اگر ایک اپارٹمنٹ 7 کروڑ کا ہے تو وہیں پرانا اپارٹمنٹ 2 کروڑ روپے کا مل رہا ہوتا ہے، اب ڈیفکلیریا کی سفارشات پر یہ ترمیم ہو گئی ہے کہ 25 سال پرانی تعمیر شدہ پراپرٹی پر ٹیکس صرف پلاٹ پر لاگو ہو گا نا کہ پوری عمارت پر۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے اہل کراچی کو یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کوئی پرانی پراپرٹی خریدنا چاہتا ہے تو وہ پراپرٹی خرید کر صرف پلاٹ کا ٹیکس ادا کرے گا تعمیرات کا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔
جوہر اقبال کے مطابق اگر کوئی 5 سے 10 سال پرانا گھر خرید رہا ہے تو ٹیکس 5 فیصد، 10 سے 15 سال پرانے گھر پر 7.5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا اور اسی طرح 15 سے 25 برس پرانی پراپرٹی کی ویلیو 30 فیصد کم ہو گی، ان کا کہنا ہے کہ اگر آج کوئی پراپرٹی خریدنا چاہتا ہے تو یہ فارمولا آج سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل گھر کی ویلیوایشن اتنی ہو گئی تھی کہ مارکیٹ سے بھی قیمت اوپر جا رہی تھی، کوئی گھر خریدتا تھا تو وہ اپنے نام ٹرانسفر نہیں کرا پا رہا تھا، مطلب گھر تو وہیں لٹکا رہتا تھا اور بیچنے اور خریدنے والے کے مسائل بڑھ گئے تھے، اب ایف بی آر کا ریونیو بھی جنریٹ ہوگا اور شہریوں کو اپنا گھر لینے میں بھی آسانیاں ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اطلاق سندھ اور بالخصوص کراچی کے لیے ہے کیوں کہ مسلئہ کراچی سے ہی شروع ہوا تھا، اسے واپس بہتر کرنے کی ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ فائلر اور نان فائلر کے معاملے پر ہم نے ایف بی آر سے کہا تھا کہ پراپرٹی کے معاملہ میں فائلر اور نان فائلر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا، جب ایک شخص پراپرٹی خریدنے آرہا ہے اور آپ کو اپنی تمام معلومات فراہم کر رہا ہے تو اسے فائلر ڈیکلیئر کیا جائے اگر وہ سال کے بعد ریٹرن بھرتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس سے ٹیکس لینے کے اور بھی راستے ہو سکتے ہیں لیکن ایسے کسی کو تنگ نہ کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *