ترسیلات زر میں مسلسل اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وزارت خزانہ کی جانب سے مسلسل یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جو پاکستان کے لیے ایک خوش آئند پہلو ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کی وجوہات ہیں کیا اور کیا اب بھی ایسی گنجائش موجود ہے جس سے ان میں مزید اضافہ ہو سکے؟
اس حوالے سے اورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس پریزیڈنٹ محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ گزشتہ 4 ماہ سے دیکھا جا رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا اور یہ گاکل ائیر 2024-25 جون تک 35 ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گے۔
محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ سے رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہو رہا ہے اس میں ترسیلات زر زیادہ آتے ہیں پھر عید آئے گی مزید بڑھیں گے اور صرف جنوری کے مہینے میں ہماری کلوزنگ 3 ارب ڈالر پر ہوئی ہے تو آنے والے 3 چار ماہ میں یہ توقعہ ہے کہ ہم مالیاتی سال کے اختتام پر کلوزنگ 35 ارب ڈالر پر کر لیں گے۔
محمد عدنان پراچہ نے اسکی وجوہات یہ بتائیں کہ اوور سیز پاکستانیوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے پاکستان پر اور وہ یہ بات تسلیم کر چکے کہ ہم نے سرمایہ پاکستان میں ہی لگانا ہے، انکا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اب سرمایہ لگانے کے لیے پلیٹ فارمز کھل رہے ہیں جو ایک سال پہلے نہیں تھے۔
محمد عدنان پراچہ کے مطابق اس وقت بھی 7 سے 8 ارب ڈالر ترسیلات زر میں اضافہ ہوسکتا ہے، سعودی عرب سے 25 سے 27 فیصد ترسیلات زر آرہی ہیں متحدہ عرب امارت سے 20 سے 21 فیصد آرہی ہے سب سے زیادہ سعودی عرب سے افرادی قوت ترسیلات زر بھیج رہے ہیں اور یہ 35 سے 37 فیصد جا سکتا ہے۔
محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ گلف ممالک پر توجہ دینے کے لیے ہم نے حکومت پاکستان کے سامنے سفارشات رکھی ہیں اگر ان پر عمل ہو جاتا ہے تو ترسیلات زر بڑھ جائیں گی دوسرا یہ کہ جن مسائل کا سامنا اس وقت ہماری افرادی قوت کو گلف ممالک میں جانے کے لیے کرنا پڑ رہا ہے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد عدنان پراچہ کے مطابق ہمارے ترسیلات زر اصل میں تھی ہی یہی اس میں کمی واقعہ ہوگئی تھی اور اب بھی اس میں اضافے کی گنجائش موجود ہے، حوالہ ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن سے اس میں بہتری آئی دوسری جانب ہم نے دیکھا کہ امریکی ڈالر اور پاکستانی روپیہ میں استحکام آیا ہے، اس سے قبل ڈالر اور پاکستانی روپے میں 5 روپے کا فرق آتا تھا جس کی وجہ سے غیر قانونی راستے کھلنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے تھے جو اب نا ہونے کے برابر ہے اب ترسیلات زر بنکوں کے زریعہ آرہے ہیں جا کی وجہ سے یہ اپنی اصل حالت میں واپس آگئے ہیں۔
محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان اس وقت اپنی پالیسیاں بہتر بنا دے تو بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 70 فیصد افرادی قوت مزدور ہے۔ ان کے لیے پراجیکٹس لانچ کیے جائیں ان کی آسانی کے لیے ایسا میکینزم ہو کہ وہ اپنے کمرے میں ایک کلک سے رقم پاکستان بھیج سکیں اور آدھے گھنٹے میں وہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچ جائے۔ اس کے ساتھ کم خرچ ہاؤسنگ اسکیمز اوورسیز پاکستانیوں کے لیے شروع کرنے کی ضرورت ہے ایسی سوسائیٹیز جس کی ضمانت حکومت پاکستان خود دے اور ان کے لیے ایسے مقامات دیکھے جائیں جن علاقوں سے زیادہ پاکستانی باہر جا رہے ہیں۔